Pages

Thursday, 29 November 2018

ہیپاٹائٹس کی ادویات سندھ میں ناپید ہوگئیں


صاحب خان بھٹی
سندھ  میں صاف پانی کی میسر نا ہونے کی  وجہ سے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور صوبے میں صحت کی بہتر سہولت نا   ہونے  کی وجہ سے  بیمار لوگوں کی تعداد میں اضافا   ہوتا جا  رہا ہے ۔  محکمہ صحت کی عدم دلچسپی کے باعث کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ  سندھ کے دیگر اضلاع میں لوگ  مختلف بیماریوں کی وجہ سے اپنی زندگی  کی جنگ   لڑتے لڑتے مر رہے ہیں۔  دادو، مورو، خیرپورناتھن شاھ سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں  مریضوں کو ادویات نہیں مل رہی ہیں  جس کی وجہ سے  لوگ پریشان ہو رہے  ہیں ۔ جو انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔ غریب مریض ادویات ختم ہونے پر جیب سے مہنگا علاج کرانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو سندھ میں ہر ایک ضلعےمیں سرکاری ہاسپٹل ہے مگر ادویات   نا ملنے کی  وجہ سے مریض بہیت پریشان ہیں، ویسے  تو سندھ میں بہت ساری بیماریاں ہیں مگر سب سے  خطرناک  بیماریاں ملیریا، ٹی بی، ہیپاٹائٹس اے،  بی،  سی،  ڈی  اور یرقان وغیرہ ہیں۔اگر دیکھا جائے تو  سندھ میں  ہاسپٹل تو ہیں مگر   لوگ ڈاکٹرز کی غیر موجودگی کی شکایتیں کرتے ہیں، ہیپاٹائٹس کے پروگرام تحت، صوبے بھر میں ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں میں مفت فراہم کی جانے والی سرکاری ادویات گذشتہ تین چار ماہ سے ناپید ہوگئے ہیں جس کے باعث مورو، دادو، خیرپور ناتھن شاھ سمیت صوبے بھر کے سیکڑوں غریب مریض پیسوں سے مہنگی ادویات خرید کرعلاج کرانے پر مجبور ہیں۔ کئی غریب مریض تو  علاج مہنگا ہونے کے باعث ادھورا ہی چھوڑ کر اپنی زندگی دائو پر لگا دیتے ہیں۔ اس  وقت  سندھ حکومت کے پاس اتنا  وقت نہیں کے وہ  سندھ کے غریب اور مستحق  لوگوں کے لئے کوئی ایکشن لے، اگر   حکومت  اپنی سیاسی سرگرمیاں چھوڑ کرعوام کے  لئے   کو ئی اچھا   کام کرے تو بہت سارے مسائل حل ہوجائنگیں۔ اگر سندھ  کے  ہر ایک  ڈسٹرکٹ میں صحت کے مرکز  پر  ادویات  کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے  تو  اس سے بیماریاں کم  ہوجائنگی۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جاری علاج میں وقفے سے ہیپاٹائٹس سی کا وائرس مریض کومزید متاثر کرسکتا ہے۔
حکومت نے سندھ میں بہت سارے ہیپاٹائٹس کے صحت مرکز کھول کر رکھیں ہیں مگر غريب لوگوں کے پاس  اتنے  پیسے نیں  ہوتے جو ہیپاٹائٹس کی ٹیسٹ کروا سکے  کیوں کے  یہ ٹیسٹ  بہت مہنگی ہوتی ہیں۔اگر کوئی مریض آنکھیں پیلی  ہونے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس مرکز  جاتا  ہے  تو      ٹیسٹ کہیں اور جگہ سے کروانا کا کہا جاتا ہے۔  جب مریض پرائیوٹ ٹیسٹ کی فیس سنتا   ہے تو وہ  اپنا  اعلاج ہی نہیں کرواتا  اور اس طرح بہت سارے لوگ مرجاتے ہیں۔ اگر کچھ لوگ  پرائیوٹ لبارٹری سے کروا بہی لیتے ہیں تو   ہیپاٹائٹس اے، بی، سی، ڈی  کی ادویات  ان مرکز پر نہیں ہوتی۔ اور اس طرح لوگ  بہٹک تےرہتے ہیں۔ اور کوئی بہی ان کی مدد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ دیہات میں  تو  کچھ  لوگوں کو پتا نہیں چلتا کے ان کو کون سی بیماری ہوئی ہے۔ اس وجہ سے کتنے  لوگ   اپنی زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں۔
ہیپاٹائٹس کو سندھی  زبان میں سائی (پیلیا) کہا جاتا ہے۔ یرقان کی بیماری یوں تو بچوں  کو ہی ہوتی ہے ۔ مگر اس بیماری سے  بڑے بہی بچ نہیں  سکتے اور ہر کوئی  شخص اس بیماری  کا شکار ہوسکتا ہے۔  ماہر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کے یرقان جگر میں خرابی کی علامت بھی ہوسکتا ہے۔  اس لئے اس بیماری کی جلد سے جلد واقفیت حاصل کرنی ضروری ہے تاکہ اس مرض کا فوری تدارک کیا جاسکے۔ یرقان کا شکار مریض اکثر و بیشتر پیٹ درد کی شکایت  بہی کرتا ہے ۔اگر  کسی شخص کے جسم کا کوئی حصہ پیلاہٹ کا شکار ہے تو فوری ڈاکٹر سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ہماری تو حکومت سندھ سے اپیل  ہے کہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے مفت ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ لوگوں کی جانیں بچ سکے۔ اور ہیپاٹائٹس مریضوں کو  ادویات مل سکے جس سے سندھ کے لوگوں کی پریشانی ختم   ہو جائے۔

dailykalyan.com Sahib Khan Bhatti article


dailysarwan.com Sahib Khan Bhatti article


dailymehran.com.pk Sahib Khan Bhatti article


Sahib khan bhatti article dailysindhmehran.com


dailyhilal.com.pk Sahib Khan Bhatti article


Wednesday, 28 November 2018

Sahib Khan Bhatti with Mukhtiar ali Soomro in KTN news


Sahib Khan Bhatti with Mukhtiar ali Soomro in KTN news


Sahib Khan Bhatti in KTN news


Sahib Khan Bhatti in KTN news


dailysarwan.com Sahib Khan Bhatti article


dailymehran.com.pk Sahib Khan Bhatti article


dailymehran.com.pk Sahib Khan Bhatti article


dailysindhsujag.com Sahib khan bhatti article


dailysindhsujag.com Sahib khan bhatti article


dailyhilal.com.pk Sahib Khan Bhatti article


dailyhilal.com.pk Sahib Khan Bhatti article


dailyhilal.com.pk Sahib Khan Bhatti article


dailyhilal.com.pk Sahib Khan Bhatti article


dailyhilal.com.pk Sahib Khan Bhatti article


dailyhilal.com.pk Sahib Khan Bhatti article


dailypak.net Sahib khan bhatti article


dailypak.net Sahib khan bhatti article


awamimahaz.com Sahib Khan Bhatti article


dailysobh.com Sahib Khan Bhatti article


Daily pak Sukkur Sahib Khan Bhatti article


dailykalyan.com Sahib Khan Bhatti article


dailykalyan.com Sahib Khan Bhatti article


dailykalyan.com Sahib Khan Bhatti article


dailykalyan.com Sahib Khan Bhatti article


dailykalyan.com Sahib Khan Bhatti article


dailykalyan.com Sahib Khan Bhatti article


dailyjeejal.com Sahib Khan Bhatti article


dailyhilal.com.pk Sahib Khan Bhatti article


سندھ میں ہیپاٹائٹس کی ادویات کی کمی کا نوٹیس کون لے گا؟

صاحب خان بھٹی
سندھ  میں صاف پانی کی میسر نا ہونے کی  وجہ سے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور صوبے میں صحت کی بہتر سہولت نا   ہونے  کی وجہ سے  بیمار لوگوں کی تعداد میں اضافا   ہوتا جا  رہا ہے ۔  مگر حکومت اس سنگین مسئلے  کو حل کرنے کے لئے   اقدام  نہیں اٹھا رہی ہے۔  کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ  سندھ کے دیگر اضلاع میں لوگ  مختلف بیماریوں کی وجہ سے اپنی زندگی  جنگ   لڑتے لڑتے مر رہے ہیں۔  دادہ، مورو، خیرپورناتھن شاھ سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں  مریضوں کو ادویات نہیں مل رہی، جس کی وجہ سے  بیماریاں کم  نہیں ہو رہی مگر  بڑھ رہی ہیں جو انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔
اگر دیکھا جائے تو سندھ میں ہر ایک ضلعےمیں سرکاری ہاسپٹل ہے مگر ادویات  نہیں ملنے کی  وجہ سے مریض بہیت پریشان ہیں، اس  وقت  سندھ حکومت کے پاس اتنا  وقت نہیں کے وہ  سندھ کے غریب اور مستحق  لوگوں کے لئے کوئی ایکشن لے، اگر   حکومت  اپنی سیاسی سرگرمیاں چھوڑ کرعوام کے  لئے   کو ئی اچھا   کام کرے تو بہت سارے مسائل حل ہوجائنگیں۔ اگر سندھ  کے  ہر ایک  ڈسٹرکٹ میں صحت کے مرکز  پر  ادویات  کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے  تو  اس سے بیماریاں کم  ہوجائنگی اور یہ  تب ہوگا جب  سندھ  حکومت عوام کے لئے  ایک قدم آگے  بڑہائگی۔
ویسے  تو سندھ میں بہت ساری بیماریاں ہیں مگر سب سے  خطرناک  بیماریاں ملیریا، ٹی بی، ہیپاٹائٹس اے،  بی،  سی،  ڈی  اور یرقان وغیرہ ہیں۔اگر دیکھا جائے تو  سندھ میں  ہاسپٹل تو ہیں مگر   ادہر بہی لوگ ڈاکٹرز کی غیر موجودگی کی شکایتیں کرتے ہیں، کچھ دن پہلے سپریم کورٹ میں تھر میں بچوں کے  اموات  کے کیس کی شنوائی  میں اعتراف کیا  گیا تھا کے ڈاکٹرز دیہات میں کام کرنے سے انکار کرتے ہیں اگر یہی صورتحال ہے تو اس سے اندازہ  لگایا  جا سکتا ہے کے جو ڈاکٹر  دیہات میں کام کرنے سے انکار کر سکتا ہے اگر اس کی ڈیوٹی لگ بہی جائے  تو اس کی کیا  گیرنٹی ہے وہ ڈیوٹی پر جائیگا۔یہ ہی صورتحال صوبے کی ہے۔ اگر حکومت سنجیدگی سے کام لے اور سندھ کے عوام کو بہتر صحت کی سہولتیں دے تو  لوگوں کو دوسرے اضلاع جانے کی کوئی  ضرورت نہیں پڑے گی۔  اور  یہ تب ہوگا ، جب  اچھے ڈاکٹرز کو  اندرون سندھ میں تعنیات کیا جائیگا۔
بہرحال سندھ میں حکومت نے بہت سارے ہیپاٹائٹس کے صحت مرکز کھول کر رکھیں ہیں مگر غريب لوگوں کے پاس  اتنے  پیسے نیں  ہوتے جو ہیپاٹائٹس کی ٹیسٹ کروا سکے  کیوں کے  یہ ٹیسٹ  بہت مہنگی ہوتی ہیں۔اگر کوئی مریض آنکھیں پیلی  ہونے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس مرکز  جاتا  ہے  تو      ٹیسٹ کہیں اور جگہ سے کروانا کا کہا جاتا ہے۔  جب مریض پرائیوٹ ٹیسٹ کی فیس سنتا   ہے تو وہ  اپنا  اعلاج ہی نہیں کرواتا  اور اس طرح بہت سارے لوگ مرجاتے ہیں۔ اگر کچھ لوگ  پرائیوٹ لبارٹری سے کروا بہی لیتے ہیں تو   ہیپاٹائٹس اے، بی، سی، ڈی  کی ادویات  ان مرکز پر نہیں ہوتی۔ اور اس طرح لوگ  بہٹک تےرہتے ہیں۔ اور کوئی بہی ان کی مدد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ دیہات میں  تو  کچھ  لوگوں کو پتا نہیں چلتا کے ان کو کون سی بیماری ہوئی ہے۔ اس وجہ سے کتنے  لوگ   اپنی زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں۔
ہیپاٹائٹس کو سندھی  زبان میں سائی (پیلیا) کہا جاتا ہے۔ یرقان کی بیماری یوں تو بچوں  کو ہی ہوتی ہے ۔ مگر اس بیماری سے  بڑے بہی بچ نہیں  سکتے اور ہر کوئی  شخص اس بیماری  کا شکار ہوسکتا ہے۔  ماہر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کے یرقان جگر میں خرابی کی علامت بھی ہوسکتا ہے۔  اس لئے اس بیماری کی جلد سے جلد واقفیت حاصل کرنی ضروری ہے تاکہ اس مرض کا فوری تدارک کیا جاسکے۔ یرقان کا شکار مریض اکثر و بیشتر پیٹ درد کی شکایت  بہی کرتا ہے ۔اگر  کسی شخص کے جسم کا کوئی حصہ پیلاہٹ کا شکار ہے تو فوری ڈاکٹر سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے،   ماہر ڈاکٹرز  کہتے ہیں کے یرقان میں آنکھوں کا سفید حصہ اور جلد پیلاہٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔
کچھ لوگ تو  یہ بہی کہتے کے  ہیپاٹائٹس کی وجہ سے جگر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور مریض  کمزور ہوجاتا ہے۔ اس لئے  گنے کا جوس پینا  چاہئے ، جس سے جگر کے کام کو مزید بہتری ملتی ہے۔  کچھ لوگ تو گہریلو ں ٹوٹکے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کے ٹماٹر کا جوس پینے سے انسان کے اندر خون بننا شروع  ہوجاتا  ہے۔ جس سے یرقان کے مریض ادویات سے جلد صحت مند ہوسکتا ہے۔  اور کچھ لوگ تو مولی، لیموں،  پپیتی کے پتے،  پالک،چھاچھ کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ڈاکٹرز کی ادویات لینا بہیت  ضروری ہے،  ور نہ مریض کبہی  ٹہیک نہیں ہوسکتا۔
ہماری تو سندھ سرکار سے یہ  ہی گذارش ہے کے سندھ  ہیپاٹائٹس کے مراکز پر ادویات   نا  ہونے کا نوٹس لے کے  سارے مراکز پر ہیپاٹائٹس کی ادویات فوری  طور پر  پہچائے جس سے لوگوں کی جانیں بچ سکے۔ اور ہیپاٹائٹس مریضوں کو  ادویات مل سکے جس سے اندرون سندھ کے لوگوں کی پریشانی ختم  ہوسکے۔ 

سنڌو کي بند ٻڌڻ خلاف ثقافتي ڏهاڙي عالمي سطح تي احتجاج موقعو

صاحب خان ڀٽي



سنڌ ڌرتي صوفين جي سرزمين آهي، هن ڌرتي تي امن ۽ ڀائيچاري جو درس ڏنو ويندو آهي، اهو ئي سبب آهي جو هتان جا ماڻهو وڏا مهمان نواز آهن ۽ ان ئي مهمانوازي جو فائدو وٺي هر ڪنهن سنڌ کي نقصان پهچائڻ جي ڪوشش ڪئي آهي پر سنڌ جي بهادر پٽن انهن ڪوششن کي پنهنجي جانين جو نذرانو ڏئي ناڪام بڻايو آهي،  سنڌ ۾ ڌارين جي آبادڪاري هجي يا وري سنڌو درياهه کي  بند ٻڌڻ جون سازشون هجن، سنڌ جا  غيرتمند پٽ ڪفن پهرين روڊن تي  پر امن احتجاج ڪندي نظر آيا آهن پر افسوس جو ان باوجود به ملڪ جي حڪمرانن سنڌ سان زيادتيون ڪرڻ بند نه ڪيون آهن، هن وقت به پاڻي کوٽ خلاف سڄي سنڌ ۾ احتجاج ٿي رهيا آهن پر ان باوجود  حڪمرانن جي ڪن تي ڪا جونءَ نه ٿي چري.
 جيڪڏهن ڏٺو وڃي ته گذريل ڪيتري ئي عرصي کان ملڪ اندر پاڻي جو بحران هلي رهيو آهي، برسات پوڻ جو سلسلو به ملڪ اندر گهٽجي ويو آهي، جنهن سبب  زرعي پاڻي سان گڏ پيئڻ جي پاڻي جو مسئلو به ڏينهون ڏينهن وڌندو پيو وڃي، سنڌو درياهه ۾ به  پاڻي بدران واري اڏامي رهي آهي، بدين ٺٽو ۽ سنڌ جي ٻين علائقن ۾ پاڻي نه هئڻ سبب زمينون بنجر بڻجي ويو آهي، جيڪو پاڻي سنڌو درياهه ۾ ڇڏي پيو وڃي اهو به ڊيلٽا جي لاءِ ناڪافي آهي،  ڊيلٽا ۾  مٺو پاڻي نه پوڻ سبب سنڌ جي هزاري ايڪڙ زمين سمنڊ ڳڙڪائي ويو آهي پر وفاقي حڪومت کي ان  جو ڪو به فڪر نه آهي، پنجاب مان ايندڙ زهريلي پاڻي سنڌ جي قدرتي ڊيم منڇر ڍنڍ کي به تباهه ڪري ڇڏيو آهي ۽ منڇر ڍنڍ جو پاڻي هاڻ پيئڻ جي  قابل نه رهيو آهي.
هن ڍنڍ جي ڪپرن تي آباد مهاڻا به لڏپلاڻ ڪري هليا ويا آهن، جيڪو ڪجهه نظر ايندا آهن، اهي به ويچارا هاڻ غربت ۽ مفلسي واري زندگي گهاري رهيا آهن، ڇاڪاڻ ته جڏهن هن ڍنڍ جو پاڻي مٺو هوندو هو ته هتي مڇي تمام گهڻي ٿيندي هئي ۽ هن ڍنڍ تي  مهمان پکي به سياري جي موسم ۾ ايندا هئا پر افسوس جو  هاڻ هن ڍنڍ جو پاڻي  زهريلو ٿي و يو آهي،  سنڌ سرڪار هجي يا وفاق، ٻنهي حڪومتن وٽ منڇر ڍنڍ جي بحالي لاءِ فنڊ نه  آهن ۽ نه ئي وري منڇر ڍنڍ  جو پاڻي آلودگي جو شڪار ڪيئن ٿيو، ان بابت جاچ ڪرڻ جي لاءِ ڪو وقت آهي، جيئن  سنڌ اندر هڪ سازش تحت ڌارين جي لوڌ کي آباد ڪري پوءِ انهن کي سڃاڻپ ڪارڊ جو اعلان ڪيو ويو، ايئن  منڇر ڍنڍ جو حشر ڪيو ويو آهي، هن  ڍنڍ ۾ به  زهريلو پاڻي ايئن داخل ڪيو ويو آهي، جيئن حڪمرانن افغانين، بنگالين، بيهارين ۽ برمين کي سنڌ ۾ داخل ڪيو ويو آهي.
جيڪڏهن ڏٺو وڃي ته جهڙو حڪمرانن سنڌ جي اصل وارثن سان ڪيو آهي، اهڙو ئي حشر هن قدرتي ڊيم سان ڪيو ويو آهي. هڪ طرف سنڌ ۾ ڌارين جي آبادي سبب آبادي ٻيڻ ٽيڻ تي ٿي وئي آهي ته مٿان وري سنڌو درياهه ۾ پاڻي بدران واري اڏامي  رهي آهي، ڪجهه ڊيم جيڪي ملڪ آهن، انهن مان به سنڌ کي پنهنجي پاڻي جو حصو نه ملي آهي، سنڌ سان معاهدو ڪيو ويو هو ته ڊائون اسٽريم تائين پاڻي ڇڏيو ويندو ته جيئن ڊيلٽا ۾ پاڻي پئي، ڊيلٽا بچيل رهي پر افسوس ان تي به عمل نه ٿي رهيو آهي، جنهن سبب سنڌ جي زمين  سمنڊ ڏينهون ڏينهن ڳڙڪائي رهيو آهي ۽ لکين ايڪڙ زمين بنجر بڻجي رهي آهي، هڪ ڳالهه ته صاف ظاهر  ٿي چڪي آهي ته وفاق  صوبن جي اختيارن کي قبول نه ٿو ڪري ۽ نه ئي وفاق  صوبن کي پنهنجا حق ڏيڻ چاهي ٿو.
جيڪڏهن ايئن نه هجي ها ته  پاڻي معاهدي تي عمل ضرور ٿيو هو، ايتري قدر جو قومي اسيمبلي جي اجلاس ۾ حڪومتي وزير پاڻ تسليم ڪري رهيو هو ته سنڌ جو پاڻي چوري ڪري پنجاب کي ڏنو پيو وڃي، ان مان صاف ظاهر آهي ته  وفاقي حڪومت رڳو هن دور ۾ نه پر ماضي ۾ سنڌ سان اهڙو ورتاءُ ڪندي رهي آهي، هن وقت سنڌ ۾ ايندڙ پاڻي جي لپ تي به قبضو ڪرڻ جون سازشون ٿي رهيون آهن ۽ اڻ سڌي ريت هڪ مارشلا به لڳو پيو آهي، ڪنهن کي به ڳالهائڻ جي اجازت نه پئي ڏني وڃي، ميڊيا کي لغام ڏنو ويو آهي ته جيئن سنڌ جي ڪروڙين ماڻهن جو احتجاج دنيا آڏو رڪارڊ نه ٿي سگهي، هڪ طرف قومي ميڊيا تي اڻ سڌي ريت سنڌين جي احتجاج کي ڏيکارڻ جو بينڊ لڳل آهي ته مٿان وري  سوشل ميڊيا تي به ڊيمن تي ڳالهائندڙن خلاف ڪارروائي جي حڪمت عملي جوڙي وئي آهي.
جيڪڏهن ڏٺو وڃي ته اهڙو لڪاءُ ته ضياءُ الحق ۽ آمر پرويز مشرف جي دور ۾ به نه ٿيو هو، جيڪو هن جمهوري حڪومت ۾ ٿي رهيو آهي، آمريت ۾ به ماڻهو ٿورو احتجاج ڪري وٺندا هئا پر  موجوده جمهوري حڪومت ۾ نه ته  ڪنهن  سياستدان کي ڳالهائڻ جي اجازت آهي ۽نه ئي وري عوام  کي احتجاج ڪرڻ جو حق ڏنو پيو  وڃي. جيڪڏهن لکين ماڻهو گڏ به ٿي وڃن ٿا ۽ سنڌو  درياهه کي بند ٻَڌڻ خلاف مارچ ڪن ٿا ته اليڪٽرانڪ ميڊيا به ان کي نظر انداز ڪري ڇڏي آهي، اهو سڀ ڪجهه ان ڪري ٿي رهيو آهي، اهو سڀ ڪجهه ان ڪري ٿي رهيو آهي جو سنڌو درياهه ۾ پاڻي کوٽ خلاف عالمي سطح تي احتجاج ٿي رهيو آهي، حڪمرانن پاران سنڌو درياهه ۾ پاڻي ڇوڙ نه پيو ڪيو وڃي، جنهن سبب هڪ تائين زرعي پاڻي نه هئڻ سبب فصل گهٽ ٿي رهيا آهن ۽ ٻيو وري شهرن ۾ پيئڻ جو پاڻي پيسن تي به ملڻ تمام گهڻو ڏکيو ٿي ويو آهي.
سنڌ جا آبادگار سنڌ سميت سڄي ملڪ ۾ پاڻي کوٽ خلاف احتجاج ڪري رهيا آهن پر انهن جي دانهن ٻڌڻ وارو ڪير به نه آهي. جيئن ته سنڌ اندر ثقافتي ڏهاڙو  ملهائڻ جون به تياريون عروج تي پهتل آهن، ان ڏينهن سنڌ جا ماڻهو سنڌو درياهه تي بند ٻڌڻ خلاف عالمي سطح تي پنهنجو احتجاج رڪارڊ ڪرائن ته ملڪ جي حڪمرانن جون اکيون کلي وينديون، ڇاڪاڻ ته هن ڏينهن هر هڪ سنڌي ٽوپي ۽ اجرڪ پائي روڊن تي نظر ايندو ۽ پنهنجي ثقافت کي اجاڳر ڪندو، هي موقعو سنڌين لاءِ تمام گهڻو آهي ۽ اسان هن موقعي  کي ضايع ٿيڻ نه ڏيون ۽  ثقافتي ڏهاڙي هٿن ۾ پلي ڪارڊ ۽ بينر کڻي عالمي سطح تي احتجاج رڪارڊ ڪيون ۽ ان ڏينهن تي سنڌ جي ماڻهن کي ڏيهي توڙي پرڏيهي ميڊيا کي ڪوريج  ڏيڻي پئجي ويندي، 
جيڪڏهن هر هڪ سنڌي  سنڌو درياهه کي بند ٻڌڻ خلاف بينر کڻي ته اسان جو احتجاج هڪ ڏينهن ضرور رنگ لائيندو، جيڪڏهن هن ڏينهن کي اسان رڳو ٽوپي ۽ اجرڪ پائي  گذاري ڇڏيوسين ته پوءِ  اسان جو سنڌو درياهه سان محبت جو اظهار اڌورو رهجي ويندو ۽ سنڌ کي بند ٻڌڻ جو خواب ڏسندڙ پنهنجي سازش ۾ ڪامياب ٿي ويندا. اچو ته اسان سڀ گڏجي سنڌ جي ثقافتي ڏهاڙي تي سنڌو جي انچ انچ تي ڊيم اڏڻ واري حڪمت عملي کي ناڪام بڻايون، جيڪڏهن سنڌو درياهه تي هاڻ هڪ به ڊيم ٺهيو ته پوءِ سنڌي پاڻي جي ڍڪ لاءِ به ترسندا، هن وقت واريءَ سان گڏ ڪجهه پاڻي ته نظر اچي رهيو آهي پر اڳتي هلي اهو به نظر نه ايندو. 

Tuesday, 27 November 2018

حڪومت جا سئو ڏينهن ۽ عوامي رد عمل


صاحب خان ڀٽي
تحريڪ انصاف چيئرمين عمران خان پاران ڪنٽينر واري سياست دوران ڪيل ڳالهين تان يوٽرن وٺن کان وٺي احتجاج ڪندڙن کي ڪنٽينر فراهم ڪرڻ واري واعدي تائين يوٽرن ورتو ويو آهي، وزيراعظم عمران خان چيو هو ته جيڪو به ماڻهو  ڌرڻو هڻندو يا احتجاج ڪندو هو ان کي پاڻ ڪنٽينر فراهم ڪندو پر جڏهن  کي ڪجهه ڏينهن ئي گذريا هئا ته  سرڪاري ملازمن کي نوڪرين تان برطرف ڪرڻ جو سلسلو شروع ٿيو ۽ پوليس  آفيسرن سميت مختلف کاتن ۾  مقرريون ۽  بدليون به ڪيون ويون  پر افسوس جو ان جو ڪو کڙ تيل نه نڪتو، ان سان گڏ تحريڪ انصاف اقتدار  ۾ اچڻ کان اڳ هڪ ڪروڙ نوڪريون ڏيڻ جو واعدو به ڪيو  هو پر افسوس جو ان جي ابٽڙ ئي ڪم ٿي رهيو آهي، نوڪريون ڏيڻ بدران ماڻهن کي نوڪرين تان هٽايو پيو وڃي،
تحريڪ انصاف پاران ٽيڪس گهٽائڻ ۽ غربت ختم ڪرڻ جو واعدو ڪيو هو پر  ان تي  به عمل ٿيندي نظر نه اچي رهيو آهي، حڪومت هر وقت اهڙا  قدم کڻي رهي آهي، جنهن سان اپوزيشن کي تنقيد ڪرڻ جو موقعو ملي رهيو آهي، هي  تاريخ جي پهرين حڪومت آهي، جنهن کي اقتدار ۾ اچڻ  سان ئي احتجاجن کي منهن ڏيڻو پئجي رهيو آهي ۽ اهو احتجاج ڪو نواز ليگ يا پيپلزپارٽي طرفان نه پيو ڪيو پيو وڃي پر انهن ڌرين  پاران ڪيو پيو وڃي، جن جي تحريڪ انصاف ڪڏهن به مخالفت نه ڪئي هئي نه ئي وري انهن جي ڌرڻن کي غلط قرار ڏنو هو پر هاڻ انهن ڌرين کي فسادي ٻيو الائي ڇا ڇا چيو پيو وڃي،
مطلب ته تحريڪ انصاف احتجاج ڪندڙن کي ڪنٽينر فراهم ڪرڻ بدران جيل جي ياترا ڪرائي رهي آهي پر جيڪڏهن ڏٺو وڃي ته تحريڪ انصاف ڪيترائي  ڏينهن ڌرڻا هنيا پر ان باوجود ڪنهن به شخص کي گرفتار نه ڪيو ويو پر جڏهن تحريڪ انصاف جي حڪومت ۾ ٽي ڏينهن احتجاج ٿيا ته ناڻي وارو وفاقي وزير اسد عمر چيو ته ٽن ڏينهن جي ڌرڻن سان ملڪ کي تمام گهڻو نقصان ٿيو آهي پر ان کان اڳ تحريڪ انصاف پاڻ نواز ليگ جي حڪومت ڪيترائي ڏينهن ملڪ جي گاڏي واري شهر ۾ ڌرڻا هينا هئا. اهڙي بيان کان پوءِ نواز ليگ تحريڪ انصاف کان انهن ڌرڻن جي نقصان بابت پڇيو پر تحريڪ انصاف ڪو به جواب نه ڏنو.
تحريڪ انصاف جي اقتدار ۾ اچڻ کانپوءِ ماڻهن کي نوڪرين مان ڪڍڻ، هڪڙن کي پنهنجا گهر ليز ڪرائڻ جي اجازت ڏيڻ ۽ هڪڙن جا گهر غيرقانوني قرار ڏئي ڊاهڻ  وارا فيصلا ڪيا ويا، جنهن تي به حڪومت تي سخت تنقيد ٿي، ايتري قدر تحريڪ انصاف جي اڳواڻن اقتدار جو فائدو به حاصل ڪيو. پاڪ پتن جي ڊي پي او کي هٽايو ويو، جنهن جو سوشل ميڊيا تي هنگامو مچڻ بعد سپريم ڪورٽ کي نوٽيس به وٺڻو پيو هو، جنهن دوران انڪشاف ٿيو هو ته وزيراعظم جي زباني حڪم تي ڊي پي او کي هٽايو ويو هو، جنهن تي  سڌ سماءَ واري وفاقي وزير فواد چوڌري چيو هو ته جيڪڏهن وزيراعظم کي بدلي ۽ مقرري ڪرڻ جو اختيار نه آهي ته پوءِ اليڪشن ڇو ڪرايو ويو هو، اهڙي بيان تي عدالت عظميٰ طرفان ڪاوڙ جو به اظهار ڪيو هو.
بهرحال ان کان پوءِ  تحريڪ انصاف 50 لک گهر تعمير جو اعلان ڪيو هو ۽ انهن گهرن بابت فارم به جاري ڪيا ويا ۽ ماڻهن فارم به ورتا پر اهي گهر ڪڏهن ۽ ڪٿي ٺهندا، ان بابت ڪنهن کي خبر نه آهي. ان کانپوءِ آءِ جي اسلام آباد کي هٽايو ويو، جنهن بابت چيو ويو ته ان کي اعظم سواتي جي فون نه کڻڻ تي  هٽايو ويو  آهي، ان جو به سپريم ڪورٽ نوٽيس ورتو هو ۽ جاچ ٽيم ان بابت رپورٽ به جمع ڪرائي ڇڏي آهي، جيڪڏهن ڏٺو وڃي ته تحريڪ انصاف  اقتدار کان اڳ بجلي، گيس ۽ پيٽرول سستو ڪرڻ جو واعدو ڪيو هو پر افسوس حڪومت ملڻ کانپوءِ تحريڪ انصاف گيس جا اگهه ٻيڻ تي ڪري ڇڏيا ۽ بجلي ۽ گيس جا اگهه وڌائي عوام جي چيلهه ئي چٻي ڪري ڇڏي.
اڄ به  سنڌ سميت سڄي ملڪ ۾ عوام  مهانگيون شيون خريد ڪرڻ تي مجبور ٿي ويو آهي پر افسوس جو حڪمرانن کي ڪجهه نظر نه اچي رهيو آهي، روز اجلاس گهرائي رڳو اها حڪمت عملي جوڙي ويندي آهي ته عوام مٿان ڪهڙو ٽيڪس لڳايو وڃي، ان حوالي سان مختلف ايجنڊا تي غور ويچار ڪيو ويندو آهي، مطلب ته عوام کي فائدو پهچائڻ لاءِ ڪو به اجلاس نه ڪوٺايو ويندو آهي پر اهي اجلاس رڳو عوام کان پيسا اوڳاڙڻ جي لاءِ ڪوٺايا ويندا آهن، هن حڪومت ۾ غريب ماڻهن هجن يا واپاري سخت  پريشان ٿي ويا آهن، ڪاروبار  به گهٽجي ويو آهي ۽ ملڪي معيشيت به سگهاري ٿيندي نظر نه اچي رهي آهي، اسٽيٽ بينڪ چيو آهي ته سعودي عرب کان مليل پيسا رڳو ڏيکارڻ لاءِ آهي، استعمال ڪري نه ٿا سگهجن.هوننئن ته وزيراعظم چين، سعودي عرب، گڏيل عرب امارات سميت ٻين ملڪن جا دورا ڪري چڪو آهي، ان حوالي سان چيو پيو وڃي ته پاڪستان کي تمام گهڻي امداد ملي آهي پر ان باوجود آءِ ايم ايف وٽ وڃڻ جون ڳالهيون به ٿيون آهن،
ايتري قدر جو آءِ ايم ايف جو وفد اسلام آباد ۽ ڪيترائي ڏينهن ڳالهيون به هلنديون رهيون به پر ان بابت هن وقت تائين ڪا خاص خبر اچي نه سگهي آهي. بهرحال قرض نه وٺڻ جون ڳالهيون ڪندڙ  جماعت اڄ مختلف ملڪن کان قرض وٺڻ لاءِ دورا ڪري رهي آهي، ڪجهه ملڪن طرفان قرض ڏنو ويو آهي پر ان بابت هن وقت تائين ڪو واضح بيان نه ڏنو ويو آهي، رهي ڳالهه سعودي عرب جي ته سعودي عرب طرفان پيٽرول ملڻ باوجود عوام کي مهانگي اگهه تي پيٽرول ڏنو پيو وڃي. هونئن ته سڄي دنيا ۾ پيٽرول سستو ٿي رهيو آهي پر هن ملڪ مهانگو ٿي رهي آهي ۽ هن ملڪ ۾ پيٽرول مهانگو ڇو نه ٿئي؟  هن ملڪ تبديلي جو اچي وئي آهي،  جيڪڏهن مهانگيون شيون نه ملن ته آخر اسان ڪيئن چئي سگهون ٿا ته هن ملڪ ۾ تبديلي اچي وئي آهي.
بهرحال هي دنيا جو واحد ملڪ آهي، جتي وڌ کان وڌ ٽيڪس غريب ماڻهن تي لڳايو ويو آهي، جنهن سان غريب ماڻهو ڏينهون ڏينهن غريب ۽ امير  ڏينهون ڏينهن امير ٿيندو پيو وڃي. جيئن ته تحريڪ انصاف حڪومت کي اقتدار سنڀاليندي 100 ڏينهن مڪمل ٿي ويا آهن ۽ ان حوالي سان تحريڪ انصاف پاران 29 نومبر تي ڪارڪردگي جو جائزو وٺڻ لاءِ اجلاس به ڪوٺايو ويو آهي، پ پ چيئرمين بلاول ڀٽو زرداري چيو آهي ته تحريڪ انصاف جا سئو ڏينهن سئو يوٽرن رهيا، جڏهن به بلاول ڀٽو هڪ نعرو به هينو آهي ته ڏهن جي ماني پندرهن جو نان، واهه ڙي عمران خان.  ن ليگ ترجمان مريم اورنگزيب چيو آهي ته سئو ڏينهن ۾ تاريخي يوٽرن ۽ ڪوڙ قسطن جي صورت ۾ اچڻ وارا آهن، سئو ڪوڙ لڪائڻ لاءِ وڌيڪ سئو ڪوڙ ڳالهايا ويندا. ٻئي طرف وزير اعظم سيڪريٽريٽ ۽ هائوس بجلي جي بلن جون 11 ڪروڙ رپين جون رهتون ادا نه ڪرڻ جو انڪشاف ٿيو آهي، جڏهن ته ميڊيا تي اهي به خبرون آهن ته ملڪ جي سڀ کان وڏي آفيس ايوان صدر به بجلي جو بل ادا ناهي ڪيو جيڪو اسلام آباد اليڪٽرڪ سپلائي ڪمپني (آيسڪو) جو قرضي آهي. وزير اعظم هائوس بجلي جي بلن جا 3 ڪروڙ رپيا ۽ وزير اعظم سيڪريٽريٽ 9 ڪروڙ رپيا ادا ناهن ڪيا.
بهرحال  تحريڪ انصاف جي اڳواڻ بابر اعواڻ کان هڪ صحافي سئو ڏينهن واري ڪارڪردگي تي سوال ڪيو هو، جنهن جو جواب ڏيندي  بابر اعواڻ چيو هو ته هاڻ ملڪ ۾ ڪا به چوري نه ٿي رهي آهي ۽ نه ئي ڪو احتجاج ڪري رهيو آهي ۽ نه ئي وري روڊ بلاڪ ڪر ي رهيوآ هي، جيڪڏهن ڏٺو وڃي ته تحريڪ انصاف جي اڳواڻ سچ ئي چئي رهيو آهي، جڏهن   عوام کي احتجاج ڪرڻ جي اجازت نه ڏني وڃي ۽ ميڊيا  به انهن جو احتجاج ڏيکارڻ کان اڳ سئو ڀيرا سوچي ته اتي دنيا کي ته اهو لڳندو ته هن ملڪ ۾ هاڻ امن ٿي چڪو آهي پر بابر اعواڻ جي ان بيان جي تازو ٿيل احتجاجي ڌرڻن پت وائکي ڪري ڇڏي آهي.

Sunday, 25 November 2018

آبادگارن جو احتجاج ۽ سياستدانن جو روايتي جواب


صاحب خان ڀٽي
سنڌ ۾ پاڻي جي کوٽ خلاف آبادگار سراپا احتجاج بڻجي ويا آهن،  ايتري قدر جو آبادگار وڃي اسلام آباد به پهتا آهن پر انهن جي دانهن ٻڌڻ وارو ڪير به نه آهي، جوهي هجي ايا وري  سنڌ جو ڪو ٻيو علائقو هر طرف آبادگار پاڻي کوٽ خلاف سراپا احتجاج بڻيل  آهي، ڪٿي   آبادگارن کي پاڻي نه ٿو ملي ته ڪٿي وري آبادگارن کي وري فصل جو اگهه صحيح نه ملي رهيو آهي، جنهن سبب هو انهن جون پريشانيون ڏينهون ڏينهن وڌنديون پيون وڃن، ڳرا ٽيڪس لڳڻ سبب  فصل  جو ٻج، دوائون ۽ ڀاڻ به تمام گهڻو مهانگو ٿي ويو  آهي پر  فصل جو اگهه اهو ساڳيو ئي آهي، نه ڪڻڪ مهانگي ڪئي وئي آهي ۽ نه ئي وري چانورن جو اگهه وڌايو  ويو آهي ۽ نه ئي وري ڪمند جي اگهه ۾ ڪا واڌ نظر اچي رهي آهي.
اڄ به سنڌ سميت سڄي ملڪ ۾ آبادگار ڪمند  جا اگهه گهٽ هئڻ سبب سراپا احتجاج آهن،  پر ان باوجود حڪومت جي ڪن تي جونءَ به نه ٿي چري.  جيڪڏهن ڏٺو وڃي ته هن وقت حڪومت وٽ  آبادگارن لاءِ ڪا  به حڪمت عملي نظر نه اچي رهي آهي، جيڪڏهن حڪومت وٽ ڪا حڪمت عملي هجي ها ته اڄ آٻادگار سڄي ملڪ ۾ احتجاج ڪندي نظر  نه اچن  ها ۽ نه ئي وري انهن کي اسلام آباد ۾ احتجاج ڪرڻ جي ضرورت پئي ها. ڪجهه ڏينهن اڳ قومي اسيمبلي  جي اجلاس ۾ تحريڪ انصاف جي ميمبر لال چند مالهي چيو ته  چونڊن کان پوءِ سنڌ جي آبادگارن کي پاڻي لاءِ ترسايو پيو وڃي، کين انتقام جو نشانو بڻائيدي پاڻي بند ڪيو ويو آهي. جيڪي آبادگار پاڻي کوٽ خلاف احتجاج ڪري رهيا آهن،ا نهن خلاف ڪيس به داخل ٿي رهيا اهن.
جيڪڏهن ڏٺو وڃي ته ان ۾ ڪو به شڪ نه آهي ته  سنڌ ۾ پاڻي  کوٽ خلاف احتجاج ڪندڙن خلاف ڪيس داخل ٿي رهيا آهن پر اهو ڪو هي پيهريون ڀيرو نه ٿيو آهي، ان کان اڳ به سنڌودرياهه جي پاڻي کي بند ڏيڻ خلاف احتجاج ٿيندا آهن ۽ پاڻي بند ڪرڻ خلاف احتجاج ڪندڙن خلاف ڪارروايون به ٿينديون رهيون آهن، جيڪي اڄ به جاري ۽ ساري آهن ۽ جيڪي ماڻهو پاڻي کوٽ خلاف احتجاج ڪري رهيا آهن، انهن کي مختلف لقب به ڏنا ويندا آهن. بهرحال اهو سلسلو هن ملڪ ڳچ عرصي کان هلندڙ آهي، اهو تڏهن ئي رڪجي سگهجي ٿو جڏهن ته اسان جي ملڪ جا حڪمران سنيجده ٿين ۽ عوام جي مسئلن کي سمجهن ۽ طاقت جي استعمال کان اڳ  ايترو ضرور سوچين ته طاقت جي استعمال سان رياست ڪمزور ٿيندي آهي، ڇاڪاڻ ته جڏهن حڪمران پنهنجي عوام تي طاقت جو استعمال ڪندا آهن ته ان سان عوام جو رد عمل به ايندو  آهي، اهو رد عمل رياست جي لاءِ فائديمند نه هوندو آهي.
بهرحال سنڌ ۾ حڪمرانن سنڌ جي عوام  جي آبادگارن جي خوشحالي لاءِ ڪي به قدم نه کنيا آهن، جنهن سبب اڄ ڏينهن تائين اهم شعبو زراعت  تباهي جي ڪنڌي تي پهتل آهي، جيڪڏهن سنڌ سرڪار چاهي ته سنڌ جو هاري خوشحال ٿي سگهي ٿو پر افسوس هتي سرمائيداري نظام هئڻ سبب سنڌ جو عوام بک ۽ بدحالي واري صورتحال کي  منهن ڏئي رهيو آهي،  هونئن ته سڄي ملڪ پاڻي کوٽ خلاف احتجاج  ٿي رهيا آهن ۽ خاص طور تي پڇڙي وارن  کي پاڻي نه ملڻ خلاف احتجاج به ٿيندا رهيا آهن پر هن ڀيري جوهي جا آبادگارن همت جو مظاهرو ڪري پاڻي کوٽ خلاف  هڪ تاريخي احتجاج رڪارڊ ڪرايو آهي، جيڪو هڪ سٺو عمل آهي.
اسلام آباد، ڪراچي، حيدر آباد سميت سنڌ جي  مختلف شهرن ۾ جوهي جي آبادگارن هڪ تاريخي احتجاج رڪارڊ ڪرايو آهي، جيڪڏهن سڄي سنڌ جو عوام پاڻي کوٽ خلاف ايئن پنهنجو پرامن احتجاج رڪارڊ ڪرائيندو رهيو ته عالمي سطح تي هڪ نه هڪ ڏينهن انهن جو عوام ضرور پهچندو. بدقسصمتي سان هن ملڪ ۾ سنڌ سرڪار هجي يا وفاقي سرڪار، انهن ٻنهي وٽ  عوام جي ڀلائي جي لاءِ سوچڻ لاءِ وقت ئي نه آهي، جنهن سبب اڄ ڏينهن تائين نه بجلي جو بحران ختم ٿي سگهيو آهي ۽ نه ئي بيروزگاري جي خاتمي لاءِ ڪا حڪمت عملي جوڙي وئي آهي. هميشه سياستدانن پاران هڪ ٻئي تي الزام لڳائڻ واري  روايت برقرار رهي  آهي.  جيڪڏهن حڪومت ٿورو سنيجدگي سان سوچي ۽ آبادگارن جي  فلاح  لاءِ ڪا حڪمت عملي جوڙي ته هن ملڪ ۾ خوشحالي اچي ويندي.
جيڪڏهن هن ملڪ جو عوام ئي خوشحال نه هوندو ته ملڪ ترقي ڪيئن پنهنجن پيرن تي بيهي سگهندو. جيڪڏهن حڪمران چاهين ته زراعت جي شعبي کي هٿي وٺرائي سگهن ٿا. بهرحال سنڌ ۾ پاڻي جي کوٽ سان گڏ فصل جو مناسب اگهه نه ملڻ به هڪ وڏو مسئلو آهي، جنهن سبب ماضي ۾ به آبادگار احتجاج ڪندي نظر آيا آهن. ايتري قدر جو ڪمند جو اگهه درست نه ملڻ سبب آبادگار معاشي بدحالي جو شڪار ٿي ويا آهن، اهو به ٻڌڻ ۾ اچي رهيو آهي ته ڪمند جو اگهه نه ملڻ سبب هارين ڪمند پوکڻ ئي ڇڏي ڇڏيو آهي، آبادگارن جو چوڻ آهي ته سنڌ ۾ شگھر ملز مافيا  کين مناسب اگهه نه ٿي ڏئي، جنهن سبب هو ڪمند پوکڻ نه ٿا چاهين، جيڪڏهن ڏٺو وڃي ته ماضي ۾ ته سنڌ جي آبادگارن پنهنجي فصل کي باهه ڏئي ڇڏي هئي ۽ چيو هو ته ڪجهه به ٿي پئي هو گهٽ اگهه تي پنهنجو ڪمند وڪرو نه ڪندا.
اسان ته سنڌ سرڪار ۽ وفاقي سرڪار کان اهو ئي مطالبو ڪنداسين ته  فوري طور آبادگارن کي پاڻي فراهم ڪرڻ سان  انهن کي کي مناسب سهولتون فراهم ڪري ته جيئن سنڌ جا هاري بک ۽ بدحالي واري صورتحال مان ٻاهر نڪري سگهن.  جئين ته هن وقت ملڪ جون حالتون سڀني جي سامهون آهن، جيڪڏهن  سنڌ ۾ آبادگارن کي پاڻي نه مليو ته  ملڪ اندر کاڌي پيتي جي شين جي تمام گهڻي کوٽ ٿي ويندي ۽ مهانگائي سبب ڪڻڪ ۽ کنڊ ٻاهران گهرائڻي پئجي ويندي ۽ ان سان گڏ هن ملڪ جي عوام جو ته نقصان ٿيندو پر ان سان گڏ هن ملڪي کي به تمام گهڻو نقصان ٿيندو، جنهن سبب سياسي مقصدن جي حاصلات لاءِ ملڪ  ۽ عوام جو ٻيڙو  نه ٻوڙيو وڃي. جيڪڏهن سنڌ جي آبادگارن کي پاڻي ئي نه مليو ته پوءِ حڪومت افغانستان کي ڪڻڪ جي امداد به ڪري نه سگهندي.  
03213631398

Saturday, 24 November 2018

يوٽرن جي سياست ۽ عوام


صاحب خان ڀٽي
ملڪ ۾ هڪ ڀيرو ٻيهر يوٽرن جو ذڪر شروع ٿي  ويو آهي، هر طرف يوٽرن بابت  ذڪر ٿي رهيو آهي، ڪجهه سياستدان وزيراعظم جي يوٽرن واري بيان تي سخت رد عمل ڏيکاري رهيا آهن ته ڪي وري  عمران خان جي انهيءَ بيان جو دفاع ڪندي نظر اچي رهيا آهن پر ان سڄي عمل دوران عوام مونجهاري جو شڪار ٿي ويو آهي ۽ سوچڻ تي مجبور ٿي ويو آهي ته آخر يوٽرن آهي ڇا؟ ڪهڙي ڳالهه تي يوٽرن جو ذڪر تمام گهڻو ٿي رهيو آهي. ڪجهه ڏينهن اڳ ناڻي واري وفاقي وزير اسد عمر قومي اسيمبلي جي اجلاس ۾ يوٽرن بابت ذڪر ڪندي چيو ته ڪجهه عرصو اڳ شهباز شريف چيو هو ته آصف علي زرداري کي روڊن تي گهليندو پر جڏهن اسان انهن لفظن جو ورجاءُ ڪيو ته شهباز شريف چيو ته پيپلزپارٽي ۽ نواز ليگ وچ ۾ اختلاف پيدا  ڪرڻ جي ڪوشش ٿي رهي آهي، ان کي ئي يوٽرن چيو ويندو  آهي.
هن وقت ملڪ جون حالتون تمام گهڻيون خراب ٿي ويون آهن، ظاهري طور تي ته اسان کي ملڪ ۾ تمام گهڻو پيسو ايندي نظر اچي رهيو آهي پر اهو پيسو ڪٿي خرچ ٿيندو ۽ ڪٿي ڪونه ٿيندو، اهو نه ته ماضي جي حڪومتن عوام کي ٻڌائڻ جي ڪا زحمت ڪئي نه ئي هاڻ ڪا حڪومت ڪري رهي آهي، جڏهن به ملڪ جي نالي تي حڪمران قرض وٺندا آهن  ته اهو نه ٻڌايو ويندو آهي ته اهو پيسو ڪٿي خرچ ٿيندو، عوام جي ڀلائي لاءِ ٿيندو يا ڪنهن ٻئي ڪم لاءِ ٿيندو؟ بهرحال حڪمرانن جي مرضي آهي ته اهو پيسو ڪٿي به خرچ ڪري سگهن ٿا پر جيڪڏهن ڏٺو وڃي ته اهو پيسو اڄ جيڪو امداد جي نالي تي ورتو پيو وڃي، ان جو وياج عوام کي ئي ڀرڻو پوندو ، وڌيڪ ٽيڪس لڳائي اسان کان ئي اوڳاڙي ڪئي ويندي، جيئن ته اڄ ملڪ تمام گهڻو قرضي ٿي چڪو آهي ۽ ان جو اعتراف وزيراعظم عمران خان پاڻ به ڪري چڪو آهي ته اسان کي قرض جي قسط ڀرڻ لاءِ  به قرض وٺڻو پوئجي رهيو آهي، 
جڏهن ملڪ جي معاشي اهڙي هجي ته پوءِ ان وقت آخر ڪهڙو ملڪ اچي هن ملڪ ۾سيڙپڪاري ڪندو؟ اهو به هڪ سواليا نشان آهي. بهرحال حڪومت ان باوجود چئي رهي آهي ته ٻاهران ملڪ اسان جي ملڪ اندر سيڙپڪاري لاءِ تيار آهن؟ جيڪڏهن واقعي ايئن آهي ته پوءِ آخر عوام تي وڌيڪ ٽيڪس ڇو پيو لڳايو وڃي.  ملڪ ۾ هر شئي مهانگي ڪئي وئي آهي،کير هجي يا چار هجن يا وري  پيٽرول تمام گهڻو مهانگو ٿي چڪو آهي، جنهن سبب  ڀاڙا  به وڌي ويا آهن ۽ ان سان گڏ هر شئي  مهانگي ٿي وئي آهي،  خانگي توڙي سرڪاري ملازمن جون پگهارون ساڳيون آهن، انهن ۾ واڌ ڪرڻ لاءِ  ڪا حڪمت عملي نه جوڙي وئي آهي، حڪومت چاهي جنهن وقت  به پيٽرول ۽ گيس مهانگو ڪري سگهي ٿي پر سرڪاري توڙي خانگي ملازمن جون پگهارون  وڌائڻ لاءِ انهن وٽ وقت نه آهي ۽ نه انهن حڪمرانن وٽ ڪا حڪمت عملي آهي.
جيڪڏهن حڪمران پيٽرول، گيس ۽ بجلي جا اگهه وڌائي سگهن ٿا ته پوءِ ڏهاڙي تي ڪم ڪندڙ ماڻهن جي ڏهاڙي ۾ واڌ ڇو نه ٿي ڪئي وڃي، آخر رڳو حڪمران پنهنجا ڀڀ ڀرڻ لاءِ ئي سو سوچي رهيا آهن، رڳو حڪمرانن جا گهر هلائڻ لاءِ ٽيڪس لڳائي هن ملڪ جي  عوام جو جيئڻ  ڇو جنجال ڪيو ويو آهي. آخر ڇو حڪمران پنهنجا شاهي خرچ پورا ڪرڻ لاءِ عوام مٿان ٽيڪس لڳائڻ جي ڪوشش ڪري رهيا آهن، ڇا هن ملڪ جي عوام ووٽ حڪمرانن کي  ان ڪري ڏنو هو ته ڏينهن رات اجلاس ڪوٺائي رڳو عوام مٿان ٽيڪس لڳائڻ جي حڪمت عملي جوڙي وڃي، جڏهن به وفاقي ڪابينا جو اجلاس ٿئي يا وري اقتصادي  رابطا ڪميٽي جو اجلاس ٿئي رڳو عام واهپي جي شين کي مهانگو ڪرڻ جي حڪمت عملي ئي اپنائي ويندي آهي
جڏهن به حڪومت  ڪو جو اجلاس ٿيندو آهي ته ڪا نه ڪا شئِي مهانگي ضرور ڪئي ويندي آهي، نواز ليگ جي حڪومت کانپوءِ جيڪا نگران حڪومت ٺهي، ان به عوام سان ڪو گهٽ حشر نه ڪيو، نگران حڪومت به ٽيڪس لڳايا، پيٽرول مهانگو ڪيو، انهن کي به غريب عوام تي ڪو رحم نه آيو، هاڻ جڏهن تحريڪ انصاف جي حڪومت قائم ٿي چڪي آهي ته ان وقت حڪمران هن ملڪ کي پنهنجي جاگير سمجهي ٽيڪس مٿان ٽيڪس لڳائي رهيا آهن، جنهن سان پيٽرول،  گيس ۽ بجلي سميت ٻيون ڪيتريون ئي شيون مهانگيون ٿي ويون آهن ، ايتري قدر جو هن ملڪ جو رپيو به تمام گهڻو گهٽ ٿي ويو آهي ۽ ڊالر جو ملهه تمام گهڻو وڌي ويو آهي، جنهن سان حڪمرانن کي ڪو به فرق نه پئجي رهيو آهي پر غريب مان پيڙهجي رهيو آهي، انهن وٽ ڪا راهه نه بچي آهي، خانگي توڙي سرڪاري ملازمن جون پگهارون اهي ساڳيون آهن پر ٽيڪس جي شرح پنجن ڇهن مهينن جي ڀيٽ تمام گهڻو وڌي وئي آهي، 
هاڻ حڪمرانن کي جڏهن عوام جي ڀلائي جي ايڏي فڪر  آهي ته پوءِ هڪ حڪمت عملي اسان جي سياستدانن کي جوڙڻي پوندي، جيڪڏهن پيٽرول، گيس ۽ بجلي جا اگهه وڌايا ويا ته ان کان اڳ ڏهاڙي تي ڪم ڪندڙ ملازمن  جي اجرت ۾ واڌ ڪئي ويندي ۽ ان سان گڏ سرڪاري توڙي خانگي ادارن ۾ ڪم ڪندڙن ماڻهن جون پگهارون به ان حساب وڌايو وينديون. جيڪڏهن  ڏٺو وڃي ته حڪمران رڳو  پنهنجا شاهي خرچ پورا ڪرڻ لاءِ ٽيڪس لڳائي غريب عوام کان جيئڻ جوحق به کسي رهيا آهن، تحريڪ انصاف اقتدار کان اڳ  جيڪي واعدا ڪيا هئا ان تي به هاڻ عمل ٿيندي نظر نه اچي رهيو آهي، تحريڪ انصاف عوام کي گهر  ڏيڻ جو واعدو ڪيو هو پر هن حڪومت ۾ به ته ماڻهن جا گهر به ڊهندي ڏسي رهيا آهيون.  
تحريڪ انصاف پيٽرول سستو ڪرڻ جو چيو هو پر  هن حڪومت ۾  ته پيٽرول ته ڇا بجلي ۽  گيس جا اگهه  وڌائي عوام جي چيلهه چٻي ڪئي وئي آهي. ان سان گڏ تحريڪ انصاف  ڌرڻن دوران مهانگائي   ختم ڪرڻ ۽ قرض نه وٺڻ جو  اعلان ڪيو هو پر آءِ ايم ايف ته ڇا چين، سعودي عرب ۽ گڏيل ارب  امارت کان به امداد ورتي پئي وڃي ۽ چيو پيو وڃي ته ان سان ملڪ جي خوشحالي ايندي، جيڪڏهن ڏٺو وڃي ته وياج تي پيسو  ڪڏهن به لهي نه سگهندو آهي، اهو وڌندو ويندو آهي.   تحريڪ انصاف ته  ڪجهه عرصو حڪومت ڪرڻ کانپوءِ واپس هلي ويندي پر عوام  تي ان قرض کي لاهڻ لاءِ ٽيڪس مٿان ٽيڪس لڳائڻ لاءِ اجلاس ٿيندا ۽ انهن اجلاسن کي ڪوٺائڻ لاءِ به عوام جو پيسو خرچ ڪيو ويندو ۽ ان  جو بار به عوام تي ئي پوندو آهي. بهرحال ملڪ جو قرض لهي يا نه لهي پر  هن وقت  جيڪو اصل مئسلو آهي، اها بيروزگاري ۽ بک بدحالي جو آهي، ماڻهن کي روزگار ڏيڻ بدران بيروزگار ڪيو پيو وڃي، ٽيڪس لڳڻ سبب عوام جون رات جون ننڊون حرام ٿي ويون آهن، اهو سڀ ڪجهه هن حڪومت ۾ ٿي رهيو آهي، ڇاڪاڻ ته حڪومت روز ڪا نه ڪي شئي مهانگي ڪري عوام کي پريشان ڪري ڇڏي آهي، پر حڪومت کي ملازمن جون پگهارون وڌائڻ لاءِ  حڪمت عملي جوڙڻ لاءِ وقت نه آهي.
اسان تحريڪ انصاف خاص طور وزيراعظم عمران خان کي چونداسين ته اوهان ڪجهه ڏينهن اڳ اسلام آباد ۾ يوٽرن کي عظيم اڳواڻ جي نشاني قرار ڏيندي چيو هو ته جيڪو يو ٽرن نٿو وٺي اهو ليڊر ئي ناهي،  نپولين ۽ هٽلر يو ٽرن نه وٺڻ جي ڪري تاريخي شڪست کاڌي،  حالتن موجب يوٽرن نه وٺندڙ ڪڏهن به سٺو ليڊر نٿو ٿي سگهي ۽ يوٽرن نه وٺي ڄاڻندڙ جهڙو ڪو ٻيو بي وقوف نه هوندو. اسان ته وزيراعظم کي  اهو ئي چونداسين ته اوهان يوٽرن وٺو پر ان سان گڏ گيس، بجلي ۽ پيٽرول جي وڌايل اگهن واري فيصلي تي وٺو ته جيئن خبر  پئي ته عوام جي مفادن لاءِ به يوٽرن وٺڻ ڄاڻيو ٿا، جيڪڏهن اهڙن مسئلن  تي يوٽرن نه ورتو ويو ته ان سان عوام ۾ اوهان بابت اعتماد تمام گهڻو گهٽجي ويندو



Friday, 23 November 2018

ڌارين لاءِ سولائي ۽ اصلوڪن لاءِ ڏکيائون


صاحب خان ڀٽي
ملڪ ۾ آبادي تمام گهڻو تيزي سان وڌي رهي آهي، چيف جسٽس ميان ثاقب نثار به ڪجهه ڏينهن اڳ ملڪ ۾ وڌندڙ آبادي بابت ڪيس جي ٻڌڻي ڪئي هئي ۽ وڌندڙ آبادي تي تمام گهڻي ڳڻتي جو اظاهر ڪيو هو. جيڪڏهن ڏٺو وڃي ته هن ملڪ  جا سياستدان چئي رهيا آهن ته ملڪ جي آبادي ٻار وڌيڪ پيدا ڪرڻ سان وڌي رهي آهي ۽ چيف جسٽس ميان ثاقب نثار چئي رهيو آهي ته وڌندڙ آبادي سبب پاڻي جي کوٽ پيدا ٿي رهي آهي، جنهن سبب ڊيم ٺاهڻ جي ضرورت پوندي. جيڪڏهن اسان انهن ٻنهي ڳالهين تي ڌيان ڏيون ته ان ۾ ڪو به شڪ نه آهي ته وڌندڙ آبادي سان مستقبل ۾ پاڻي جو مسئلو پيدا ٿيندو پر افسوس هن ملڪ جي حڪمرانن امداد جي چڪر ۾ جيڪي ڪروڙين افغانين، بيهاري، بنگالي، برمي، ايراني ۽ ٻيا مهاجر ڀريا آهن، ان سان ملڪ ۾ آبادي ناهي وڌي،
جيڪڏهن ڏٺو وڃي ته آبادي جو ڪجهه سالن ۾ ٻيڻ،ٽيڻ تي وڌي وڃڻ جو سڀ کان وڏو ڪارڻ حڪمرانن پاران امداد وٺي ملڪ ۾ ڌاريا آباد ڪرڻ آهي، جيڪڏهن ملڪ ۾ ڌارين جي لوڌ کي آباد نه ڪيو وڃي ها ته، نه ملڪ ۾ آبادي وڌي ها ۽ نه ئي وري ملڪ ۾ دهشتگردي هجي ها ۽ نه ئي ڪنهن دهشتگرد کي همت ٿئي ها ته هن ملڪ مان ماڻهو اغوا ڪري سولائي سان افغانستان کڻي وڃي ها ۽ بعد انهن جا لاش ملن ها. بهرحال  ملڪ ۾ جيڪو پاڻي جي کوٽ مسئلو آهي، ان جو سڀ کان وڏو ڪارڻ ملڪ جي وڌندڙ آبادي آهي، جيڪڏهن حڪمران ڪروڙن جي تعداد ۾ ڌارين کي آباد ڪن ٿا ته پوءِ انهن کي خوراڪ، پاڻي، روزگار ۽ صحت جون سهولتون به  ڏيڻيون پوندو، هونئن به هن ملڪ  خاص طور تي سنڌ ۾ صحت جي سهولتن جي  کوٽ آهي ، سنڌ جا اصل وارث بيروزگار آهن پر ان باوجود  سنڌ اندر ڌارين کي  آباد ڪيو پيو وڃي، جنهن  سبب سنڌ جا اصل وارث  ڏينهون ڏينهن پوئتي وڃي رهيا آهن. جيڪڏهن هن ملڪ  ۾  ڌارين کي آباد نه ڪيو وڃي ها ته ملڪ  جي آبادي ايترو جلدي نه وڌي وڃي ها.
اڄڪلهه ملڪ ۾ نئين ملڪ جا چرچا هلي رهيا آهن، هڪڙا سياستدان نئين ملڪ جي مخالفت ڪري رهيا آهن ته ڪجهه وري نئين ملڪ جي حمايت ڪري رهيا آهن، گهرو معاملن بابت مملڪتي وزير  شهريار آفريدي چيو آهي ته تبديلي بٽڻ دٻائڻ سان نه ايندي آهي،  کين ڪجهه وقت ڏنو وڃي،  جڏهن ملڪ ۾ چونڊون ٿي رهيون هيون ته ان وقت تبديلي جو نعرو هنيو ويو هو پر افسوس اڄ  به ڪا به تبديلي نظر نه  اچي رهي آهي. ملڪ ۾ ساڳيون ئي حالتون آهن، پراڻي ملڪ ۾ سنڌ جو آبادگار ڪمند جي اگهن خلاف احتجاج ڪندو هو ته اڄ نئين ملڪ ۾ به آبادگار سراپا احتجاج بڻيل آهي، ملڪ جي ٽنهي صوبن ۾ سياسي چهرن جي تبديلي ته نظر اچي رهي آهي پر  سنڌ ۾ اها به تبديلي نظر نه پئي اچي، جنهن کي ڏسي ڪير چئي سگهي ته سنڌ ۾ به ڪا تبديلي آهي.
تحريڪ انصاف جي نئين ملڪ ۾ ٽن صوبن کان سواءِ سنڌ ۾  ساڳا چهرا نظر اچي رهيا آهن، جيڪي اسان گذريل  ڏهن سالن کان ڏسي رهيا آهيون.  پراڻي ملڪ ۾ به سنڌ جا ماڻهو پاڻي، ڌارين جي لوڌ ۽ نوجوانن جي گمشدگين خلاف احتجاج ڪندا هئا اڄ به نئين ملڪ ۾ احتجاج ڪري رهيا آهن پر افسوس جو  نه پراڻي ملڪ جي حڪمرانن جي ڪن تي ڪا جونءَ چري ۽ نه ئي وري نئين ملڪ جي حڪمرانن کي ڪو فرق پئجي رهيو آهي. مطلب ته  اڳ ماڻهو احتجاج ڪندا هئا ته اهو نظر ايندو   هو پر هن نئين ملڪ ۾ اهو احتجاج به نظر نه اچي رهيو آهي، اڳ  جڏهن به حڪومت ڪو غلط فيصلو ڪندي هئي ته عوام روڊن تي نظر ايندو هو پر هاڻ عوام روڊن تي اچي به ٿو ته اهو نظر نه پيو اچي ۽ نه ئي ڪنهن کي ڪا خبر پئجي سگهندي آهي ته ڪو احتجاج ڪري رهيو  آهي، رڳو سوشل ميڊيا تي اهي حقيقتون نظر اينديون آهن پر هاڻ ان سوشل ميڊيا تي وڌيڪ سختيون ڪرڻ لاءِ قدم کنيا پيا وڃن ۽ سوشل ميڊيا کي پنجوڙ ۾ جڪڙڻ لاءِ سازشون ٿي رهيون آهن ته جيئن حڪمرانن جو اصل چهرو دنيا آڏو وائکو نه ٿي سگهي.
بهرحال ڪيترائي حڪمران آيا ۽ ويا، انهن ڪيترائي سخت فيصلا به ڪيا پر جڏهن انهن جو اقتدار هليو ويو ته پوءِ انهن کي خبر پئي ته سوشل ميڊيا ئي سندن اصل سهارو بڻي، نواز ليگ جي جڏهن حڪومت هئي  ته ان وقت سوشل ميڊيا تي پابندي لڳائڻ جي ڪوشش ڪئي وئي پر  هاڻ جڏهن نواز ليگ اقتدار کان ٻاهر آهي ته نوازشريف ۽ نواز ليگ اڳواڻ سوشل ميڊيا جو ئي سهارو وٺي رهيا آهن، ڇاڪاڻ ته انهن کي خبر آهي ته اهو حڪومت خلاف جيڪو ڪجهه ڳالهائيندا، اهو شايد عوام وٽ ايترو سولائي سان پهچي نه سگهندو پر سوشل ميڊيا تي شيئر ڪيل خبر عوام وٽ تڪڙي پهچي ويندي. بهرحال حڪومت جيڪو ڪجهه چاهي ڪري سگهي ٿي، جيڪڏهن چاهي ته قانون سخت به ڪري سگهي ٿي پر قانون سخت ڪرڻ کان اڳ ايترو ضرور سوچيو وڃي ته اها سوشل ميڊيا ئي آهي جو چيف جسٽس ۽ وزيراعظم کي نوٽيس وٺڻ تي مجبور ڪري ڇڏي ٿي، جيڪڏهن قانون سخت ڪيو ويو ته پوءِ ڪو به غريبن جي پرگهور به نه لهندو.
جيڪڏهن ڏٺو وڃي ته  هن وقت حالتون به تمام گهڻيون خراب آهن.سنڌ جو عوام پاڻي کوٽ خلاف احتجاج ڪري رهيو آهي، ڌارين جي لوڌ کي مستقل آباد ڪرڻ لاءِ وفاقي حڪومت ڏينهن رات هڪ ڪري ڇڏي آهي، نادرا جيڪو هن ملڪ جو حساس ادارو آهي، قومي سلامتي جو ادارو آهي، ان ته حد ڪري ڇڏي آهي، ڌارين کي سولائي سان ڪارڊ ٺاهي ڏنا پيا وڃن، ايتري قدر جو ته ڪراچي ۾ ايراني، بنگالي، بيهاري، برمي ۽ افغاني وڏي انگ ۾ ترسيل آهن، جن کي سولائي سان ڪارڊ ٺهرائي ڏنا ويا آهن پر هتان جي اصلوڪن سان اهو ويڌن آهي جو ڪجهه ماڻهن جا سڃاڻپ ڪارڊ ته  بنگلاديش جو ڄاڻائي بلاڪ  ڪيا ويا آهن ته ڪن جا ڪارڊ عمر  يا ڪجهه ٻين سبب جي بند ڪيا ويا آهن،ا يتري قدر جو انهن کي مختلف طريقن سان رلايو  به پيو وڃي.
مطلب ته  هن ملڪ جو هي حساس ادارو  ڌارين جي لاءِ سولائي پيدا ڪري رهيو آهي ۽ انهن کي ڌڙا ڌڙ سڃاڻپ ڪارڊ ٺاهي ڏئي رهيو آهي ۽ وزيراعظم سميت سمورا وزير  اهڙي عمل جي طرفداري به ڪري رهيا آهن، نادرا جي عملي کي ته الائي ڪنهن جو آشير وارد  آهي جو 24 ڪلاڪ ڪراچي ۾ ڌارين جي لوڌ کي ڪارڊ  ٺاهي ڏنا پيا وڃن  ۽ ان خلاف سنڌ جا ماڻهون سراپا احتجاج به آهن پر افسوس جو  حڪمرانن جي ڪن تي جونءَ به نه ٿي چري، نادرا رڳو ملڪ جي اصلوڪن کي ئي رلائي رهيا آهن، جنهن سبب ڪيترن ئي ماڻهن جا ڪارڊ نه ٺهي سگهيا آهن، ايتري قدر جو سنڌ جا ٻهراڙي وارن علائقن ۾ ته ڪيترن ئي ماڻهن وٽ سڃاڻپ ڪارڊ آهي نه؟ اهو ان جي ڪري ئي آهي ته نادرا هڪ ته فيس تمام گهڻي وڌائي ڇڏي آهي ۽ ٻيو عوام کي نادرا عملي پاران تمام گهڻو تنگ ڪيو پيو وڃي، انهن مان آئون پاڻ به هڪ آهيان. بهرحال نادرا عملو جيڪو ڪجهه ڪري رهيو آهي، ان سان عوام کي ته نقصان ٿي رهيو آهي پر هن ملڪ کي جيڪو نقصان ٿيندو،اهو اسان جي ست نسلن کي ڀوڳڻو پوندو.
سمجهه ۾ نه ٿي اچي ته آخر اهي ڪهڙيون قوتون آهن جيڪي نادرا کي هن ملڪ جو مالڪ بڻائي ڇڏيو آهي، ايرانين، بنگالين، بيهارين ۽ افغانين وٽ ته سڃاڻپ ڪارڊ آهن ۽ انهن جا ڪير بلاڪ به نه پيو ڪري پر  هن ملڪ جي اصلوڪن کي ڪارڊ ڏيڻ ۾ نادرا کي الائي ڪهڙي تڪليف ٿي رهي آهي؟ اها به نه ٿي خبر پئي ته جيڪا پارٽي اقتدار ۾ ايندي آهي ته پرڏيهي ملڪن جي ماڻهن جي ايتري سار سنڀال ڇو ڪندي آهي ۽ انهن کي هن ملڪ جو شهري تسليم ڪرائڻ لاءِ ڇو لڳي ويندي آهي.
سنڌ مان به جيڪا پارٽي ڪامياب ٿيندي آهي ته اقتدار ۾ اچڻ بعد ان جو به رنگ تبديل ٿي ويندو آهي ۽ چيو ويندو آهي ته ڌارين کي سڃاڻپ ڪارڊ ڏنا ويندا پوءِ ڪنهن کي اها ڳالهه وڻي يا نه وڻي.جڏهن سنڌ مان ڪامياب ٿيندڙ سياستدان ئي اهڙا لفظ ڳالهائن ته ان مان صاف ظاهر ٿي وڃي ٿو ته هڪ عالمي سازش تحت سنڌ ۾ ڌارين جي لوڌ کي آباد ڪرڻ جي سازش ٿي رهي آهي ۽ اسان جا حڪمران امداد جي چڪر ۾ هن ملڪ جو ٻيڙو ٻوڙي رهيا آهن، جيڪڏهن حڪمرانن کي ملڪ جي ڪا پرواهه هجي ها ته ملڪ ۾ ڌارين جو سولائي سان وڏي انگ ۾ داخل ٿيڻ ناممڪن هجي ها پر افسوس ڌارين جي لوڌ سرحد پار ڪري آساني سان هن ملڪ ۾ اچي آباد ٿي رهي آهي ۽ انهن کي هن ملڪ جي سياستدانن جو به آشيروارد آهي، جيڪڏهن ملڪ جو عوام هن وقت به ڌارين جي لوڌ ۽ نادرا جي رويي خلاف احتجاج لاءِ نه نڪتو ته هن ملڪ ۾ اصلوڪا گهٽ ڌارين جي لوڌ تمام گهڻي هوندي.
جيڪڏهن سمورن ڌارين کي هن ملڪ جا ڪارڊ ملي ويا ته هن ملڪ جي سلامتي به تمام گهڻي خطري ۾ پئجي ويندي، جيڪي ماڻهو پنهنجو ملڪ ڇڏي هتي آباد ٿيندا ڇا هن ملڪ جي ڀلائي لاءِ ڪم ڪندا ، نه اهو ڪڏهن به نه ٿيندو ڇا ڪاڻ ته جيڪي ماڻهو پنهنجي وطن کي ڇڏي سگهن ٿا ته هن ملڪ کي به ڏکئي وقت ۾ ڇڏڻ ۾ دير نه ڪندا، جيڪڏهن حڪمرانن کي انسانيت ڏيکارڻي آهي ته هن ملڪ جي اصلوڪن ماڻهن کي ڏيکارين ۽ ڌارين کي آباد ڪرڻ بدران هن ملڪ جي اصلوڪن ماڻهن کي روزگار ۽ صحت جون سهولتون فراهم ڪري.