Pages

Thursday, 29 November 2018

ہیپاٹائٹس کی ادویات سندھ میں ناپید ہوگئیں


صاحب خان بھٹی
سندھ  میں صاف پانی کی میسر نا ہونے کی  وجہ سے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور صوبے میں صحت کی بہتر سہولت نا   ہونے  کی وجہ سے  بیمار لوگوں کی تعداد میں اضافا   ہوتا جا  رہا ہے ۔  محکمہ صحت کی عدم دلچسپی کے باعث کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ  سندھ کے دیگر اضلاع میں لوگ  مختلف بیماریوں کی وجہ سے اپنی زندگی  کی جنگ   لڑتے لڑتے مر رہے ہیں۔  دادو، مورو، خیرپورناتھن شاھ سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں  مریضوں کو ادویات نہیں مل رہی ہیں  جس کی وجہ سے  لوگ پریشان ہو رہے  ہیں ۔ جو انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔ غریب مریض ادویات ختم ہونے پر جیب سے مہنگا علاج کرانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو سندھ میں ہر ایک ضلعےمیں سرکاری ہاسپٹل ہے مگر ادویات   نا ملنے کی  وجہ سے مریض بہیت پریشان ہیں، ویسے  تو سندھ میں بہت ساری بیماریاں ہیں مگر سب سے  خطرناک  بیماریاں ملیریا، ٹی بی، ہیپاٹائٹس اے،  بی،  سی،  ڈی  اور یرقان وغیرہ ہیں۔اگر دیکھا جائے تو  سندھ میں  ہاسپٹل تو ہیں مگر   لوگ ڈاکٹرز کی غیر موجودگی کی شکایتیں کرتے ہیں، ہیپاٹائٹس کے پروگرام تحت، صوبے بھر میں ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں میں مفت فراہم کی جانے والی سرکاری ادویات گذشتہ تین چار ماہ سے ناپید ہوگئے ہیں جس کے باعث مورو، دادو، خیرپور ناتھن شاھ سمیت صوبے بھر کے سیکڑوں غریب مریض پیسوں سے مہنگی ادویات خرید کرعلاج کرانے پر مجبور ہیں۔ کئی غریب مریض تو  علاج مہنگا ہونے کے باعث ادھورا ہی چھوڑ کر اپنی زندگی دائو پر لگا دیتے ہیں۔ اس  وقت  سندھ حکومت کے پاس اتنا  وقت نہیں کے وہ  سندھ کے غریب اور مستحق  لوگوں کے لئے کوئی ایکشن لے، اگر   حکومت  اپنی سیاسی سرگرمیاں چھوڑ کرعوام کے  لئے   کو ئی اچھا   کام کرے تو بہت سارے مسائل حل ہوجائنگیں۔ اگر سندھ  کے  ہر ایک  ڈسٹرکٹ میں صحت کے مرکز  پر  ادویات  کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے  تو  اس سے بیماریاں کم  ہوجائنگی۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جاری علاج میں وقفے سے ہیپاٹائٹس سی کا وائرس مریض کومزید متاثر کرسکتا ہے۔
حکومت نے سندھ میں بہت سارے ہیپاٹائٹس کے صحت مرکز کھول کر رکھیں ہیں مگر غريب لوگوں کے پاس  اتنے  پیسے نیں  ہوتے جو ہیپاٹائٹس کی ٹیسٹ کروا سکے  کیوں کے  یہ ٹیسٹ  بہت مہنگی ہوتی ہیں۔اگر کوئی مریض آنکھیں پیلی  ہونے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس مرکز  جاتا  ہے  تو      ٹیسٹ کہیں اور جگہ سے کروانا کا کہا جاتا ہے۔  جب مریض پرائیوٹ ٹیسٹ کی فیس سنتا   ہے تو وہ  اپنا  اعلاج ہی نہیں کرواتا  اور اس طرح بہت سارے لوگ مرجاتے ہیں۔ اگر کچھ لوگ  پرائیوٹ لبارٹری سے کروا بہی لیتے ہیں تو   ہیپاٹائٹس اے، بی، سی، ڈی  کی ادویات  ان مرکز پر نہیں ہوتی۔ اور اس طرح لوگ  بہٹک تےرہتے ہیں۔ اور کوئی بہی ان کی مدد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ دیہات میں  تو  کچھ  لوگوں کو پتا نہیں چلتا کے ان کو کون سی بیماری ہوئی ہے۔ اس وجہ سے کتنے  لوگ   اپنی زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں۔
ہیپاٹائٹس کو سندھی  زبان میں سائی (پیلیا) کہا جاتا ہے۔ یرقان کی بیماری یوں تو بچوں  کو ہی ہوتی ہے ۔ مگر اس بیماری سے  بڑے بہی بچ نہیں  سکتے اور ہر کوئی  شخص اس بیماری  کا شکار ہوسکتا ہے۔  ماہر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کے یرقان جگر میں خرابی کی علامت بھی ہوسکتا ہے۔  اس لئے اس بیماری کی جلد سے جلد واقفیت حاصل کرنی ضروری ہے تاکہ اس مرض کا فوری تدارک کیا جاسکے۔ یرقان کا شکار مریض اکثر و بیشتر پیٹ درد کی شکایت  بہی کرتا ہے ۔اگر  کسی شخص کے جسم کا کوئی حصہ پیلاہٹ کا شکار ہے تو فوری ڈاکٹر سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ہماری تو حکومت سندھ سے اپیل  ہے کہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے مفت ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ لوگوں کی جانیں بچ سکے۔ اور ہیپاٹائٹس مریضوں کو  ادویات مل سکے جس سے سندھ کے لوگوں کی پریشانی ختم   ہو جائے۔

No comments:

Post a Comment