Pages

Wednesday 28 November 2018

سندھ میں ہیپاٹائٹس کی ادویات کی کمی کا نوٹیس کون لے گا؟

صاحب خان بھٹی
سندھ  میں صاف پانی کی میسر نا ہونے کی  وجہ سے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور صوبے میں صحت کی بہتر سہولت نا   ہونے  کی وجہ سے  بیمار لوگوں کی تعداد میں اضافا   ہوتا جا  رہا ہے ۔  مگر حکومت اس سنگین مسئلے  کو حل کرنے کے لئے   اقدام  نہیں اٹھا رہی ہے۔  کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ  سندھ کے دیگر اضلاع میں لوگ  مختلف بیماریوں کی وجہ سے اپنی زندگی  جنگ   لڑتے لڑتے مر رہے ہیں۔  دادہ، مورو، خیرپورناتھن شاھ سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں  مریضوں کو ادویات نہیں مل رہی، جس کی وجہ سے  بیماریاں کم  نہیں ہو رہی مگر  بڑھ رہی ہیں جو انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔
اگر دیکھا جائے تو سندھ میں ہر ایک ضلعےمیں سرکاری ہاسپٹل ہے مگر ادویات  نہیں ملنے کی  وجہ سے مریض بہیت پریشان ہیں، اس  وقت  سندھ حکومت کے پاس اتنا  وقت نہیں کے وہ  سندھ کے غریب اور مستحق  لوگوں کے لئے کوئی ایکشن لے، اگر   حکومت  اپنی سیاسی سرگرمیاں چھوڑ کرعوام کے  لئے   کو ئی اچھا   کام کرے تو بہت سارے مسائل حل ہوجائنگیں۔ اگر سندھ  کے  ہر ایک  ڈسٹرکٹ میں صحت کے مرکز  پر  ادویات  کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے  تو  اس سے بیماریاں کم  ہوجائنگی اور یہ  تب ہوگا جب  سندھ  حکومت عوام کے لئے  ایک قدم آگے  بڑہائگی۔
ویسے  تو سندھ میں بہت ساری بیماریاں ہیں مگر سب سے  خطرناک  بیماریاں ملیریا، ٹی بی، ہیپاٹائٹس اے،  بی،  سی،  ڈی  اور یرقان وغیرہ ہیں۔اگر دیکھا جائے تو  سندھ میں  ہاسپٹل تو ہیں مگر   ادہر بہی لوگ ڈاکٹرز کی غیر موجودگی کی شکایتیں کرتے ہیں، کچھ دن پہلے سپریم کورٹ میں تھر میں بچوں کے  اموات  کے کیس کی شنوائی  میں اعتراف کیا  گیا تھا کے ڈاکٹرز دیہات میں کام کرنے سے انکار کرتے ہیں اگر یہی صورتحال ہے تو اس سے اندازہ  لگایا  جا سکتا ہے کے جو ڈاکٹر  دیہات میں کام کرنے سے انکار کر سکتا ہے اگر اس کی ڈیوٹی لگ بہی جائے  تو اس کی کیا  گیرنٹی ہے وہ ڈیوٹی پر جائیگا۔یہ ہی صورتحال صوبے کی ہے۔ اگر حکومت سنجیدگی سے کام لے اور سندھ کے عوام کو بہتر صحت کی سہولتیں دے تو  لوگوں کو دوسرے اضلاع جانے کی کوئی  ضرورت نہیں پڑے گی۔  اور  یہ تب ہوگا ، جب  اچھے ڈاکٹرز کو  اندرون سندھ میں تعنیات کیا جائیگا۔
بہرحال سندھ میں حکومت نے بہت سارے ہیپاٹائٹس کے صحت مرکز کھول کر رکھیں ہیں مگر غريب لوگوں کے پاس  اتنے  پیسے نیں  ہوتے جو ہیپاٹائٹس کی ٹیسٹ کروا سکے  کیوں کے  یہ ٹیسٹ  بہت مہنگی ہوتی ہیں۔اگر کوئی مریض آنکھیں پیلی  ہونے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس مرکز  جاتا  ہے  تو      ٹیسٹ کہیں اور جگہ سے کروانا کا کہا جاتا ہے۔  جب مریض پرائیوٹ ٹیسٹ کی فیس سنتا   ہے تو وہ  اپنا  اعلاج ہی نہیں کرواتا  اور اس طرح بہت سارے لوگ مرجاتے ہیں۔ اگر کچھ لوگ  پرائیوٹ لبارٹری سے کروا بہی لیتے ہیں تو   ہیپاٹائٹس اے، بی، سی، ڈی  کی ادویات  ان مرکز پر نہیں ہوتی۔ اور اس طرح لوگ  بہٹک تےرہتے ہیں۔ اور کوئی بہی ان کی مدد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ دیہات میں  تو  کچھ  لوگوں کو پتا نہیں چلتا کے ان کو کون سی بیماری ہوئی ہے۔ اس وجہ سے کتنے  لوگ   اپنی زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں۔
ہیپاٹائٹس کو سندھی  زبان میں سائی (پیلیا) کہا جاتا ہے۔ یرقان کی بیماری یوں تو بچوں  کو ہی ہوتی ہے ۔ مگر اس بیماری سے  بڑے بہی بچ نہیں  سکتے اور ہر کوئی  شخص اس بیماری  کا شکار ہوسکتا ہے۔  ماہر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کے یرقان جگر میں خرابی کی علامت بھی ہوسکتا ہے۔  اس لئے اس بیماری کی جلد سے جلد واقفیت حاصل کرنی ضروری ہے تاکہ اس مرض کا فوری تدارک کیا جاسکے۔ یرقان کا شکار مریض اکثر و بیشتر پیٹ درد کی شکایت  بہی کرتا ہے ۔اگر  کسی شخص کے جسم کا کوئی حصہ پیلاہٹ کا شکار ہے تو فوری ڈاکٹر سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے،   ماہر ڈاکٹرز  کہتے ہیں کے یرقان میں آنکھوں کا سفید حصہ اور جلد پیلاہٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔
کچھ لوگ تو  یہ بہی کہتے کے  ہیپاٹائٹس کی وجہ سے جگر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور مریض  کمزور ہوجاتا ہے۔ اس لئے  گنے کا جوس پینا  چاہئے ، جس سے جگر کے کام کو مزید بہتری ملتی ہے۔  کچھ لوگ تو گہریلو ں ٹوٹکے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کے ٹماٹر کا جوس پینے سے انسان کے اندر خون بننا شروع  ہوجاتا  ہے۔ جس سے یرقان کے مریض ادویات سے جلد صحت مند ہوسکتا ہے۔  اور کچھ لوگ تو مولی، لیموں،  پپیتی کے پتے،  پالک،چھاچھ کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ڈاکٹرز کی ادویات لینا بہیت  ضروری ہے،  ور نہ مریض کبہی  ٹہیک نہیں ہوسکتا۔
ہماری تو سندھ سرکار سے یہ  ہی گذارش ہے کے سندھ  ہیپاٹائٹس کے مراکز پر ادویات   نا  ہونے کا نوٹس لے کے  سارے مراکز پر ہیپاٹائٹس کی ادویات فوری  طور پر  پہچائے جس سے لوگوں کی جانیں بچ سکے۔ اور ہیپاٹائٹس مریضوں کو  ادویات مل سکے جس سے اندرون سندھ کے لوگوں کی پریشانی ختم  ہوسکے۔ 

No comments:

Post a Comment