صاحب خان بھٹی
چلو بھائیو! مسلم لیگ (ن) کے قائد میان محمد
نوازشریف مارے پیارے وطن
سے چلے گئں ہیں اور اپنا علاج کروانے کے بعد صحتیاب ہوکر انشاء الللہ واپس آئنگے۔
تب تک ہمارے ملک میں زرداری صاحب موجود ہیں اور اس سیاستدان پر سیاست چمکانے کا
وقت آگیا ہے، جتنے الزام لگا کر سیاست چمکاسکتے ہے اتنے چمکائی جاسکتی ہے۔ مگر
آصف علی زرداری پہلی مرتبا جیل نہیں گئے، اس سے پہلے بہی جیل میں اپنے زندگی کے قیمتی
دن گذار چکے ہین اور یہ ہی وجہ ہے کہ زرداری صاحب بیمار ہوتے بہی خاموش ہیں اور جس
دن یہ خاموشی ٹوٹی تو اس دن کیا ہوگا؟ وہ وقت ہی بتائیگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ
کرپٹ لوگوں کو نہیں چہوڑا جائیگا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے کیا صرف سیاستدان
چور ہے؟ اور ملک کے دوسرے اداروں میں صادق
و امین لوگ بیٹہے ہیں؟ نہیں ایسا تو ہوئی نہیں سکتا، جس دن ملک میں حقیقی احتساب
ہوگا تو پارٹی تبدیل کرنے والے کرپٹ بہ نہیں بچ پائینگے، اور وہ دن ایک دن ضرور
آئیگا۔ فی الحال جو احتساب ہو رہا ہے اس دوران بہت سارے سیاستداںوں کے اصل چہرے عوام
کے سامنے آگئے ہیں۔ مگر تبدیلی کا نعرا لگا کر اقتدار حاصل کرنے والی پارٹی نے جو
عوام کے ساتھ واعدے کیئے تھے اس سے یوٹرن لیا اور مہنگا ئی حد سے بڑہتی گئی اور صنعت
کا پہیہ جام ہوگیا، ڈالر بہی مہنگا ہوگیا۔ ویسے تو ملکی معیشت کو بہنور سے نکالنا
حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہے مگر موجودہ حکومت نے جتنے ٹیکس لگائے ہیں اس سے ملک
کے حکمرانوں کا گذر سفر تو اچہا ہوسکتا ہے مگر عام آدمے کا جینا حرام ہوگیا ہے۔ موجودہ
حکومت نے ٹیکس نا لگانے اور پیٹرول مہنگا نا کرنے کا واعدہ کیا تھا مگر اس سے عوام
کو صرف یوٹرن ہی ملا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور جرائم بڑہ رہے ہیں، جب کہ غریب
عوام پریشان ہوگیا ہے، ٓ اسی طرح بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں
مسلسل اضافے سے عام آدمی کی زندگی جن مصائب میں مبتلا ہے، اس کا اندازا لگانا
ناممکن ہے۔ آج کل ہرروز کسی نہ کسی بے بنیاد افواہ یا قیاس آرائیوں کے باعث
تجارتی سرگرمیاں محدود ہوتی جارہی ہیں اور ملک میں اقتصادی امور پر تضادات سے
آلودہ تبصروں کا بازار بہی گرم ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس معاشی
پالیسیوں میں سمت کے تعین کا فقدان ہے۔ اور یہ نظام ایک مربوط اقتصادی، مالیاتی
اور معاشی روڈ میپ کے بغیر کام کر رہا ہے۔ حکومت اپنی غلط پالیسیوں کو تسلیم کرنے
کو تیار نہیں جب تک حکومت معاشی مشکلات کم کرنے کے لیے ریلیف پر مبنی معاشی
پالیسیوں کا اعلان نہیں کرے گی۔ تب تک عوام کی مشکلات مزید بڑہتے جائیں گی۔
حکومت کی پالیسیوں کے وجہ سےعام شہری بہت پریشان ہے۔ جس کا
اپوزیشن کو فاْئدہ پہچ رہا ہے اور مولانا صاحب آج کل سڑکوں پر ہے، عوام بہی ساتھ
دی رہا ہے مگر جے یو آئے (ف) سربراہ مولانا فضل الرحمان وزیراعظم عمران خان کی
طرح بہادر نہی نکلے، عمران خان تو ڈی چوک پہچ گئے تھے اور 126 دن تک دہرنا دیا گیا
تھا، پارلیامینٹ اور پی ٹی وی کے ساتھ جو حشر ہوا وہ بہی سب کو پتا ہے۔ مولانا
صاحب نے تو کچہ دن میں ہی پلان (ای) سے ہار مان کر پلان بی پے عمل شروع کر دیا ہے،
جس سے لگتا ہے حکومت پر اس کا کوئے اثر نہی ہوا، اب پلان سی کا سن رہے ہیں، جس کے
بارے میں کہا جارہا ہے کے اس سے حکومت چلی جائیگی اگر ای پلان اور پلان بی سے
حکومت نہی گئی تو کیا پلان سی سے جاسکتی ہے؟ بلکل نہی، یے ہوئی نہیں سکتا اگر
مولانا ملک کو جام نہیں کرتے اور اسلام آباد میں بیٹہتے تو شاید حکومت پر پریشر
ضرور پڑتا۔ اس لیئے تو وزیراعظم عمران خان نے کہا کے مولانا کے غبارے سے ہوا نکل
گئی ہے! ویسے تو سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہے، اس کے باوجود وہ عدم اعتماد کے
ووٹ کے ذریعے چیئرمین سینیٹ تک کو ہٹا نہیں سکے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اپوزیشن کا
آپس میں اختلاف ہے، پیپلزپاٹی کی سوچ ہے کہ مولانا سارا کریڈٹ لے جائیگا ٔ
نوازلیگ سوچتی ہے کہ مفاہمت کرکے موجودہ حالتوں سے جان چہڑوائی جائے۔ مگر مولانا
سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہتے ہیں، اسی وجہ سے اپوزشن بہی متحد نظر نہیں آرہی ہے،
اور ملک جام کرنے کا کیس بہی جے یو ائے ف کی قیادت پر داخل کیا گیا ہے۔ اب دیکہنا ہے کہ مولانا صاحب اپنے سی پلان سے
بہی اسی طرح یوٹرن لینگے، جیسے پلان ای سے لیا تھا، مجہے لگتا ہے مولانا مہنگاْئی
کے مارے لوگوں کے ترجمان نہی بن سکے وہ یہ کہ کر نکلے تھے کے وزیراعظم کی استعیفا
لیکر آئینگے اور خالی ہاتھ گہر واپس آئے ہیں اور الٹیمیٹم بہی نہیں دینا تھا۔
No comments:
Post a Comment