صاحب خان بھٹی
سندھ پاکستان کا ایک
بدنصیب صوبا ہے، جہان پے پانی کا شدید
بحران پیدا ہوگیا ہے۔ اس صوبے میں لوگ پانی کی ایک بوند کو ترسنے لگے ہیں، تھر میں
لوگوں کے پاس پینے کا پانی نہیں،جانور تو مر نے لگے ہیں مگر انسان بھی پیاسے مرنے لگے
ہیں۔حکمران صرف بیان دینے میں لگے ہیں۔ ابہی تک کسی نے بہی پانی کی شدید کلت آب کے
مسئلے کو حل کرنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کی۔جیسے جیسے دن گذر رہے ہیں، پانی کا
بحران بہی زیادہ ہوتا
جا رہا ہے۔ پانی بحران پر خطرے کی گھنٹیاں بہی تیز
ہوتی جا رہی ہیں،ہمیں پانی بحران کا سامنا بہی کرنا پڑ رہا ہے۔ شہروں میں پینے کے
پانی کی قلت ہے اور دیہاتوں میں زراعت کے لئے پانی نہیں ہے۔
پانی کم ہونے کی وجہ سے زراعت
کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ کئی علاقوں میں
آبی وسائل خطرے کی حد پا ر کرنے لگی ہیں۔
پانی زہر آلود ہونے کی وجہ سے لوگ مختلف
بیماریوں میں مبتلا ہونے لگے
ہیں۔ گزشتہ 15 یا 20 سال دوران حکومت اس مسئلے پر کسی قسم کی منصوبہ
بندی نہیں کی اور ناہی بحث و مباحثے سے عوام کو کوئی فائدہ پہنچ سکا ہے۔ ملک میں پانی کی کلت نے عوام کو بہت
پریشان کر دیا ہے۔ اس ملک میں سب سے
زیادہ مہاجرین کی آمد
ہو تی ہے اور ان
کو یہاں آسانی سے پاکستان شہریت مل جاتی ہے اور اس طرح اس کی آبادی بڑہتی جا رہی ہے، اعلیٰ عہدوں
پر رہنے والوں کا کہنا
ہے کہ بچے کم پیدا کرنے سے آبادی کم ہوگی مگر ان کو ملک میں مہاجروں کو آباد کرنے سے آبادی بڑہتے
نظر نہیں آتی۔
اگر دیکھا جائے تو پانی کی
کلت کا یہ بہی ایک سبب ہے جس کی وجہ سے پانی کا استعمال زیادہ ہوگیا
ہے۔ پانی اور ماحولیاتی ماہرین میں سے کسی نے بھی اس پانی بحران کے مسئلے
کو آبادی کے اعداد کے تناظر میں نہیں دیکھا، اسی وجہ سے آج ملک میں پانی کا بہت بڑا بحران
پیدا ہوگیا ہے، سندھ میں پانی نا ہونے کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ زمین بنجر بنگئی
ہے اور آبادگار فصل اگانے کے لیئے پریشان ہو رہے
ہیں، زمین بنجر ہونے کی وجہ سے آبادگار معاشی کنگال بن گئے ہیں،
دوسری طرف میٹھے پانی کا سمندر میں چھوڑ نہ ہونے کے سبب سمندر کی لھروں نے سینکڑوں
ایکڑ زمین حضم کرلی ہے۔ دوسری طرف شھریوں
کو بھی پانی ملنا مہال ہوگیا ہے، دیھاتی لوگ زھریلا پانی استعمال کرنے پر مجبور
ہوگئے ہیں اور اس بات کا اعتراف واٹر
کمیشن بہی کر چکا ہے۔
دریائے سندھ کے
مغرب ضلع دادومیں واقع قدیم
ترین منچھر جھیل اس ملک میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ اس جھیل میں دریائے
سندھ سے بھی پانی ڈالا جاتا ہے۔ یہاں میٹھے پانی کی مچھلی بھی کافی تعداد میں پائی
جاتی ہے۔اس جھیل پے بے شمار پرندوں آنا جانا رہتا ہے اور سردیوں میں یہاں سائیبریا
سے بھی مہاجر پرندے سردیاں گزارنے آتے ہیں اور یہاں کے لوگ ان پرندوں کا شکار بہی کرتے ہیں ۔ مگر پانی زہریلا ہونے کی وجہ سے اب مہاجر پرندے بہت کم آتے
ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ کے پرندے آتے ہی
نہیں تو وہ بات
غلط نہیں ہوگی۔ جب یہ مہاجر پرندے
منچھر جھیل پر آتے تھے تو اس وقت یہاں کے
ماہی گیر بہت خوشحال تھے اور پانی میٹھا ہونے کی وجہ سے مچھلی بہی بیت ہوتی
تھی اور ماہی گیر مچھلی بیچ کر اپنا گذر
سفر کرتے تھے۔
سپریم کورٹ نے سنہ 2010 میں جھیل کی بحالی کا حکم دیا تھا لیکن
جھیل کی آلودگی میں کمی کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ ایک طرف سندھ میں کوئی
بڑا ڈیم نہیں تو دوسری طرف سندھ میں موجود قدرتی ڈیموں کو زہریلا پانی شامل
کر کے ایک سازش تحت تباھ و برباد کیا جا
رہا ہے۔ کچھ دن پہلے سپریم کورٹ کے چیف
جسٹس، جسٹس میاں ثاقب نثار نے سندھ کی
منچھر جھیل کی آلودگی کا نوٹیس لیا
تھا اور اس دن سندھ کے ماہی گیروں میں
ایک امید جاگی تھی مگر وہ امید صرف امید ہی
رہگئی ہے۔
گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل
منچھر کا پانی زہریلا ہوگیا ہے مگر ایک
بہی وزیر نے اس جھیل کے پانی کوصاف کرنے کے لئے نوٹیس نہیں لیا۔ منچھر جھیل کا پانی
زہریلا ہونے کی وجہ سے ماہی گیر بیروزگار تو
ہوگئے ہیں مگر اب پینے کے پانی سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ سیم
نالے کا کھارا پانی جھیل میں ڈالنے کی وجہ سے یہ جھیل آلودگی کا شکار ہوگئی ہے اور یہاں کی جنگلی اور آبی حیات شدید
متاثر ہوگئی ہے۔ سیم کا پانی جھیل میں شامل ہونے سے اب یہ پانی پینے کے قابل نہی رہا۔ اگر اس جھیل کو وفاقی حکومت بچانا چاہتی ہے تو
اس جھیل میں زہریلا پانی ڈالنا بند کروائے
اور ماہی گیروں کے ساتھ سندھ کے اس قدرتی قدیم ڈیم کو بچائے۔اس سے اس صوبے
کے لوگ بہی خوشحال ہونگے اور پانی کی کلت کے وقت اس پانی
کو استعمال بہی کیا جاسکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment