صاحب خان بھٹی
ملک میں جب بہی الیکشن ہوتے ہیں تب عوام کے ساتھ
سیاستدان بڑے بڑے واعدے کرتے ہیں مگر مشکل سے سو میں سے دس
سیاستدان اپنے واعدے پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ سیاستدان تو یوٹرن لے لیتے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو یہ
سلسلا ہمارے ملک میں کتنے وقت
سے چل رہا ہے ۔ مگر عوام اس امید سے ہوتی
ہے کے اس مرتبا جو بہی سیاستدان آئے گا وہ
ملک میں خوشحالی لائے گا اور قوم کے ساتھ کیَے ہوئیے واعدے پورے کرے گا مگر افسوس جو بہی پارٹے کامیاب ہوتی ہے وہ
اپنے واعدوں سے یوٹرن لے لیتی ہے۔ اس مرتبا تبدیلی کے
نعرے پر ملک میں کامیاب ہونے والی پارٹی نے بہی اقتدار میں آتی ہے یوٹرن لے
لیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں غربت و افلاس کے مارے عوام کئی
برسوں سے متواتر مہنگائی کا طوفان برداشت کرتے آ رہے ہیں ۔ حکومتی ناقص معاشی
پالیسیوں کی بدولت غریب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہا ہے۔ الیکشن سے پہلے عوام سے مہنگائی ختم
کرنے کا واعدہ کیا گیا تھا مگر اس پر بہی کوئی عمل نہیں ہوا ۔ پیٹرول سستا کرنے کا واعدہ کیا گیا مگر وہ بہی پورا نہیں ہوا۔ جب سے تحریک انصاف کی حکومت
آئی ہے تب سے مہنگائی نے عوام کو دن میں تارے دکھا دیے ہیں ۔ ریڈیو پاکستان کے ملازمین اور دیگر محکمہ کے ملازمین احتجاج کر رہے ہیں ۔ ملک
میں زیادہ ٹیکس لگنے کی وجہ سے گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اور ناروا اضافہ کے گیا ہے، جس کے بعد اب بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ
کیا گیا ہے۔ عوام کی مشکلات تو حل نہ
ہوئیں مگر لوگوں کا سیاسی نظام پر سے اعتماد اٹھ تا جا رہا ہے۔ بے جا ٹیکسز کی شرح میں اضافہ کے پیش نظر
کاروباری افراد کی کمر ٹوٹ گئے ہے۔ اس صورتِ حال میں معیشت میں مہنگائی کے ساتھ
ساتھ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ لوگ مہنگائی کے سبب پیٹ کاٹ کاٹ
کر جینے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کی معیشت زراعت پر انحصار کرتی ہے مگر ٹیکس لگنے کی وجہ سے کسان بہی پریشان ہوگیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے ملک کے سیاستدان ملک میں مہنگائی کے بم کو
ناکارہ کر سکتے ہیں اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے
جب ہمارے ملک کے جمہوری سیاستدان ایک پیج
پر آجائے، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں دو قسم کے سیاستدان پائے جاتے ہیں، ایک وہ جو
جمہوریت پر یقین رکہتے ہیں اور ایک وہ سیاستدان ہیں جو غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ
دیتے ہیں۔ عوام تو صرف الیکشن کے وقت ووٹ دیتی ہے۔ اس امید سےکے ان کے
مسائل حل ہوجائنگے مگر وہ امید صرف امید
ہی رہجاتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب سیاستدانوں
کا یوٹرن لینا ہے۔ اگر سیاستدان یوٹرن نہ لے اور عوام کے ساتھ کیئے ہوئے واعدے پورے کرے تو عوام کا سیاستدانوں پے بھروسا بڑھ جائے گا۔ کچھ دن پہلے اسلام آباد میں
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ یوٹرن نہ لینے والا
کبھی کامیاب رہنما نہیں ہوتا اور جو یوٹرن لینا نہیں جانتا، اس سے بڑا بےوقوف لیڈر
کوئی نہیں ہوتا۔ تاریخ میں نپولین اور ہٹلر نے یوٹرن نہ لے کر تاریخی شکست کھائی۔نواز
شریف نے عدالت میں یوٹرن نہیں لیا بلکہ جھوٹ بولا تھا۔ عمران خان کے اس بیان کے
ردعمل میں پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما خورشید شاہ نے کہا تھا کہ عمران خان نے ہٹلر
کی مثال دے کر ثابت کیا کہ وہ بھی ہٹلر ہیں۔وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کے بعد اپوزیشن کے ساتھ ساتھ عوام بہی حیران ہوگئی
اور اس طرح ملک ایک مرتبا پھر یوٹرن پر بحث چھڑ گیا۔ اور آج کل صرف یوٹرن
کا بحث چل رہا ہے۔ دیکھا جائے تو اس وقت حکومت کو یوٹرن
کی بات کرنے سے پہلے تبدیلی کے نعرے
کو انجام تک
پیچانا چایئے اور یہ
تب ہوگا جب سیاستدان ایوانوں میں ایک دوسرے پر الزام لگانے کی بجائے عوام کے اصل مسائل کو بیان کریں۔ ہماری تو حکمرانوں سے
صرف ایک ہی گذارش ہے کہ وہ عوام سے کیئے ہوئے واعدے پورے کرے ، جس سے اس
ملک میں حقیقی تبدیلی بہی آئیگی اور عوام بہی خوشحال ہوگا۔ اس وقت ملک میں یہ
صورتحال کے صحافتی اداروں نے بہی اپنے
ملازمین کو نکالنا شروع کر دیا ہے۔ اور بہت سارے
صحافی حضرات بیروزگار ہوگئے ہیں۔ اور کچھ صحافی حضرات تنخواہ نا ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ایک
صحافتی ادارے نے تو تنخوہ بہی نہیں دی
اور جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف
کیس بہی داخل کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں ہو رہا ہے ۔ یہ
سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ مہنگائی نے ہر ایک کی کمر ٹوڑ دی ہے۔ اگر حکومت
یوٹرن لینے سےپہلے مہنگائی ختم کر دے تو
یہ سارے مسائل حل ہوجائینگے۔
No comments:
Post a Comment